اہم ترین خبریںسعودی عرب

سعودی عرب میں خمینی کا انتظار، سرزمین وحی میں انقلاب کی سگبگاہٹ، برطانوی جریدہ

شیعیت نیوز: برطانوی جریدہ اکونومیسٹ نے اپنی رپورٹ میں حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے اپنے عوام کی ثقافت اور ان کے اعتقادات کو بدلنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی جریدہ اکونومیسٹ نے اپنی رپورٹ میں محمد بن سلمان کی ولی عہدی کے زمانے میں سعودی عرب میں سماجی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی اور لکھا کہ سعودی حکام، (نہی از معروف اور امر بہ منکر) یعنی برائی کا حکم دے رہے ہیں اور اچھائی سے روک رہے ہیں۔

برطانوی جریدہ کی رپورٹ میں آیا ہے کہ سعودی عرب کے کم از کم تین شعبے کافی ناراض ہیں جن میں محمد بن سلمان نے نئی تبدیلیوں کا آغاز کیا ہے اور صرف وہ خوف و ہراس اور سرکوبی کے ڈر سے کچھ کہنے یا کرنے سے قاصر ہیں۔

2017 میں جب سے بن سلمان ولی عہد کے عہد بنے ہیں تب سے لے کر اب تک سماجی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہيں جن میں پبلک پلیس میں خواتین اور مردوں کے ایک جگہ پر جمع ہونے کی اجازت، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت اور اسٹیڈیم اور دوسری سرگرمیوں میں ان کی موجودگی بھی شامل ہے۔

محمد بن سلمان ان تبدیلیوں سے دنیا کے سامنے سعودی عرب کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں، خواتین کارکنوں اور مخالفین کو بھی نہیں چھوڑا اور ان کی سرکوبی کی ہے جس کی وجہ سے ان کی کاروائیوں پر شدید ردعمل آتے رہے ہيں۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی عرب میں دو بحرینی نوجوانوں کو سزائے موت

برطانوی جریدہ لکھتا ہے کہ سعودی حکام نے 30 دسمبر کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس مقامات اور مساجد میں یہ اعلان چسپاں کرا دیئے ہیں کہ دو میٹر کی سوشل ڈیسٹینسنگ کا خیال رکھا جائے، ان کے اس اقدام سے پوری طرح واضح ہے کہ بن سلمان ان مقدس مقامات کو خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اسی طرح گزشتہ مہینے سات لاکھ نوجوانوں کی موجودگی میں میوزیک کنسرٹ ہوا اور کورونا وبا کے باوجود اس میں کافی بھیڑ جمع تھی اور لوگ طبی پروٹوکول کی دھجیاں اڑاتے نظر آ رہے تھے۔

برطانوی میگزین اکونومیسٹ سعودی عرب کی موجودہ اور ماضی کے حالات کا مقایسہ کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ ماضی میں ان کے بادشاہوں کی عادت تھی کہ وہ صاحب نظر افراد کے ساتھ ہفتہ وار اجلاس کرتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے، ان کی باتیں سنتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے لیکن سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ اور ولی عہد نے اس رسم و رواج کو خیرآباد کہہ دیا ہے۔

جریدہ لکھتا ہے کہ کچھ افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ محمد بن سلمان کے اقدامات کی وجہ سے ان کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں بہت کم ہی افراد کا یہ خیال ہے کہ مذہبی رہنما ہمیشہ خاموش نہیں رہ سکتے اور کچھ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ایران میں شاہ کے خلاف انقلاب لانے والے امام خمینی کا سعودی عرب میں بھی ظہور ہوگا؟

متعلقہ مضامین

Back to top button