اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

’جناح چچا‘ کے لاڈلےراجہ صاحب محمود آباد جنھوں نے ہر قسم کے عہدے اور جائیدادکو ٹھکرادیا

ایک ایسا شخص جس نے پاکستان کے قیام کے لیے اپنے روز و شب اور اپنی بے پناہ دولت کی کوئی پروا نہیں کی، جس نے اپنی صحت سے صرف نظر کیا اور مسلسل جدوجہد کرتا رہا، وہ سقوط ڈھاکہ پر بے یارو مدد گار دیار غیر میں آنسو بہاتا رہا

شیعیت نیوز:مئی، سنہ 1931۔ انڈیا کی ریاست محمود آباد کے مہاراجہ محمد علی محمد خان وفات پا چکے۔ ان کے فرزند محمد امیر احمد خان اب ریاست کے حکمران قرار پائے ہیں لیکن ان کی عمر ابھی تقریباً ساڑھے 16 سال ہی ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب برطانیہ سے انڈیا کی آزادی کی تمنا برصغیر کے کونے کونے میں پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب انگریز سرکار کی نظریں محمود آباد پر ہیں اور وہ مہاراجہ کے انتقال کے بعد ریاست کو کورٹ آف وارڈز کی تحویل میں لینا چاہتے ہیں۔

ایسے نازک سیاسی منظرنامے میں خدشہ ہے کہ ایک نوجوان حکمران ریاست کے سیاسی امور پر پوری طرح قابو نہیں رکھ پائے گا۔

مہاراجہ نے راجہ امیر احمد خان کی کمسنی کے پیش نظر اپنے انتقال سے قبل ریاست کے انتظامات کی نگرانی کے لیے ایک بورڈ آف ٹرسٹیز قائم کر دیا تاکہ ان کے انتقال کے بعد ریاست کورٹ آف وارڈز کی تحویل میں نہ چلی جائے۔

اس بورڈ آف ٹرسٹیز میں سرِفہرست نام محمد علی جناح کا تھا جو ان دونوں اکابرین کے مابین قریبی تعلق کے ترجمان تھے۔

یاد رہے کہ محمد علی محمد خان سنہ 1917 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بنے اور وہ اس وقت محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں یہ تعلقات سیاسی نوعیت کے تھے مگر رفتہ رفتہ یہ مراسم برادرانہ تعلقات میں تبدیل ہوگئے۔

اپریل 1918 میں جب محمد علی جناح نے رتن بائی سے نکاح کیا تو اس نکاح نامے پر راجہ محمد علی محمد خان نے محمد علی جناح کے وکیل کی حیثیت سے دستخط کیے۔

یہ بھی پڑھیں: کمزور ریاستی پالیسی ،کالعدم ٹی ایل پی کے بعد ملک دشمن کالعدم سپاہ صحابہ بھی پابندی ہٹوانے کیلئے میدان میں آگئی

شادی کے دن محمد علی جناح نے رتن بائی کو جو انگوٹھی پہنائی تھی وہ نہ صرف راجہ صاحب نے تحفے میں دی تھی بلکہ شادی کے بعد انھوں نے ہنی مون بھی نینی تال میں واقع راجہ صاحب کے مکان ’گیلوے ہاؤس‘ میں منایا تھا۔

جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جناح نے نینی تال جاتے ہوئے مہاراجہ محمد علی محمد خان کے ہاں مختصر قیام کیا تھا۔ اس وقت راجہ صاحب محمود آباد کی عمر ساڑھے چار سال تھی۔

مطلوب الحسن کے مطابق اس موقعے پر راجہ امیر احمد رتی بائی کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ ان کے بقول وہ بہت ہی خوبصورت تھیں اور ان پر کوہ قاف کی پریوں کا گمان ہوتا تھا۔

راجہ صاحب محمود آباد کا بچپن اور ’جناح چچا‘ سے قربت

راجہ محمد امیر احمد خان 5 نومبر 1914 کو محمود آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اردو، عربی، انگریزی اور جرمن زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔

والد کے انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً ساڑھے 16 سال تھی مگر ان میں تدبر، فراست اور علمی لیاقت اس قدر تھی کہ کم عمری کے باوجود اُنھوں نے نہ صرف ریاست کا انتظام سنبھالا بلکہ ان تعلقات اور تحریکات سے بھی خود کو دور نہیں کیا جن کی بنیاد ان کے والد مہاراجہ محمود آباد نے رکھی تھی۔

اس خاندان کے لیے یہ صورتحال اجنبی نہیں ہے: ریاست کے والی نواب علی خان نے 1857 میں اودھ کے دارالحکومت لکھنؤ پر انگریزوں کی یلغار کو روکنے کے لیے جدوجہد کی تھی تاہم ان کی موت کے بعد برطانوی راج ریاست محمود آباد کو ضبط کرنے کا خواہش مند تھا۔

تاہم سیتاپور کے ایک اسسٹنٹ کمشنر مرزا عباس بیگ کی کوششوں سے انگریز چیف کمشنر سر ہنری لارنس نے ریاست محمود آباد کو ضبط کرنے کے بجائے ’سرکاری تحویل‘ میں لے لیا جس سے اس کی خودمختاری پر کم اثر پڑا اور نواب علی خان کے نو سالہ صاحبزادے محمد امیر حسن خان کو ریاست کا مستقبل کا راجہ نامزد کر دیا گیا۔ اس دوران نواب علی خان کی بیوہ ریاست کے انتظامی معاملات چلاتی رہیں۔

اپنے دادا کی زندگی سے حاصل ہونے والا یہی سبق مہاراجہ محمد علی محمد خان کے ذہن میں تھا۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کی مدت 4 جنوری 1936 کو پوری ہوگئی اور ٹرسٹ نے راجہ محمد امیر احمد خان کو ریاست کے کل اختیارات تفویض کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: کسی سے بلیک میل نہ ہونے کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان آخر کارکالعدم ٹی ایل پی کے ہاتھوں بلیک میل ہوہی گئے

سید اشتیاق حسین اپنی کتاب ’دی لائف اینڈ دی ٹائمز آف راجہ صاحب آف محمود آباد‘ میں لکھتے ہیں: ’محمد علی جناح راجہ امیر احمد خان سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔ راجہ صاحب سے ان کی شفقت و محبت مثالی تھی۔ راجہ صاحب جب بھی بمبئی جاتے ان کا قیام جناح صاحب کے گھر ہوتا۔ جناح صاحب ان کے آرام اور ضرورتوں کا مکمل خیال رکھتے۔ ایک مرتبہ جب راجہ صاحب بمبئی میں جناح کے ہاں مقیم تھے، رات کے وقت اچانک ان کی آنکھ کھلی تو اُنھوں نے دیکھا کہ ان کے انکل جناح ان کے بستر کے قریب کرسی پر بیٹھے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں، محبت اور شفقت کے آنسو۔ یہ ایک متاثر کن منظر تھا جسے راجہ صاحب تمام زندگی نہیں بھول سکے۔‘

راجہ صاحب محمد علی جناح کو ہمیشہ ’انکل‘ یا ’چچا‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور فاطمہ جناح کو ’پھوپھی‘ اور دینا کو ’بہن‘ کہا کرتے تھے۔ محمد علی جناح بھی نے ہمیشہ راجہ صاحب کے جذبات کا احترام کیا اور ان سے اولاد کی طرح محبت کی۔

مسلم لیگ میں شمولیت اور پھر کنارہ کشی

راجہ امیر احمد خان مزید تعلیم کے حصول کے لیے شانتی نکیتن جانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں ان کی بات ٹیگور سے ہو چکی تھی مگر محمد علی جناح کے مشورے پر اُنھوں نے یہ ارادہ ترک کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے۔

انھیں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر نامزد کیا گیا جس نے نہ صرف فیڈریشن کے تنظیمی معاملات کو مزید مضبوط کیا بلکہ نوجوانوں میں ایک ایسا جذبہ پیدا کر دیا جو آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت میں بھی معاون ثابت ہوا۔

مسلم سیاست سے راجہ امیر احمد خان کے تعلق کا سلسلہ قیام پاکستان تک جاری رہا اور 1945 میں انھوں نے نہ صرف بمبئی میں محمد علی جناح کے انتخاب میں فعال کردار ادا کیا بلکہ خود بھی اتر پردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔

تاہم تحریک کے دیگر رہنماؤں سے اخلاقی اور سیاسی اختلافات کے باعث راجہ صاحب دلبرداشتہ ہو گئے۔

خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں: ’راجہ صاحب اگرچہ مطالبہ پاکستان کی منظوری کے لیے پوری طرح سرگرم عمل تھے اور ان کی جناح سے وفاداری بھی بعینہٖ موجود تھی لیکن بعض رہنماؤں کے طرز عمل سے وہ اس قدر کبیدہ تھے کہ تحریک پاکستان کے آخری ایام میں ان کی مصروفیات صرف جناح کے ایک سپاہی کے حد تک رہ گئیں۔

’اسی عرصے میں یعنی اگست 1946 میں راجہ امیر احمد خان نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ ہندوستان چھوڑنے اور عراق میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘

جون 1947 میں راجہ صاحب ایک قافلے کے ساتھ عراق اور ایران کے سفر پر روانہ ہوئے جہاں عراق کے وزیرِ اعظم جنرل نوری السعید اور شہنشاہ ایران نے ان کو ملاقات کا اعزاز بخشا۔ کچھ دنوں بعد وہ لکھنؤ واپس آگئے مگر پاکستان کے قیام سے چند دن پہلے وہ کوئٹہ پہنچ گئے تاکہ وہاں سے ایران کے راستے دوبارہ عراق جا سکیں۔

وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد ختم ہو گئی ہے اور پاکستان کی سیاست اُن خطوط پر استوار نہیں ہو سکے گی جو تحریک پاکستان کے دوران عوام کے ذہن میں مرتسم ہوئے تھے۔

ایک روایت کے مطابق راجہ صاحب نے قیام پاکستان کے بعد پہلی عیدالفطر کوئٹہ میں ہی منائی اور اس کے بعد کوئٹہ سے زاہدان کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں سے وہ بغداد پہنچے جہاں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔

جناح نہ نہرو، عہدہ نہ جائیداد

کچھ عرصے بعد راجہ صاحب پاکستان واپس آئے جہاں محمد علی جناح نے انھیں پاکستان کی خدمت کے لیے روکنا چاہا مگر راجہ صاحب کو محسوس ہوا کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ اس نئے ملک سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شیعہ علماءکونسل کے رہنما علامہ رمضان توقیر کی دعوت پر پی ٹی آئی رہنما و وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پورکی الکوثر سکول اینڈ کالج کے افتتاح وجشن صادقینؑ میں خصوصی شرکت

پاکستان کے بعد وہ انڈیا واپس گئے جہاں جواہر لال نہرو نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور انھیں ہندوستان کی خدمت کرنے پر آمادہ کرنا چاہا مگر راجہ صاحب نے ان سے بھی معذرت کر لی۔ ان کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں اور سہولتیں موجود تھیں مگر انھوں نے ہمیشہ سادگی اور انکسار کو اپنا شعار رکھا۔

سنہ 1948 سے 1957 تک راجہ صاحب انڈیا اور پاکستان سے زیادہ عراق میں مقیم رہے تاہم وہ ضرورتاً برصغیر آتے جاتے رہے۔

سنہ 1958 کے لگ بھگ اُنھوں نے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے لکھا ہے کہ ’لندن میں ایک بار میں صدر اسکندر مرزا کو اپنی چھوٹی سی کار میں چھوڑنے ان کی رہائش گاہ جا رہا تھا کہ راستے میں راجہ صاحب کا تذکرہ ہوا، اسکندر مرزا نے کہا کہ میں نے ایک بار کراچی میں راجہ صاحب کو کمشنر کراچی کے ہاتھوں پراپرٹی کا ایک الاٹمنٹ آرڈر بھجوایا لیکن راجہ صاحب نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وصولی کے دستخط نہیں کیے۔‘

’اسکندر مرزا نے مجھے بتایا کہ جب انھیں یہ پتا چلا کہ تو وہ خود ان کے گھر گئے اور ان سے پوچھا کہ آخر آپ نے کاغذات وصول کیوں نہیں کیے۔ اس پر راجہ صاحب نے کہا خدارا، مجھے اس امتحان میں نہ ڈالیں اور وہ زار و قطار رونے لگے۔ یہ کراچی الفنسٹن سٹریٹ پر ایک ایسی جائیداد کی الاٹمنٹ تھی جس کی اس زمانے میں قیمت کئی کروڑ روپے ہوتی تھی لیکن راجہ صاحب کی درویشانہ طبیعت نے اسے قبول نہیں کیا۔‘

راجہ صاحب چند برس کراچی میں مقیم رہے اور مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں نے انھیں قیادت پر آمادہ کرنا چاہا مگر ان کا مؤقف یہی رہا کہ یہ وہ مسلم لیگ نہیں جس کے وہ ادنیٰ سپاہی تھے۔

جولائی 1964 میں انھوں نے کراچی میں سراج الدولہ کالج کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا اور 1966 میں اپنے صاحبزادے راج کمار سلیمان میاں کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے عازمِ لندن ہوئے۔

لندن میں انھیں اسلامک کلچر سینٹر کی سربراہی کی پیشکش ہوئی جس کا قیام حکومت برطانیہ اور حکومت مصر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا۔

راجہ صاحب مئی 1968 میں اس ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ سنہ 1969 میں جب یحییٰ خان پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انھوں نے راجہ صاحب کو برطانیہ میں پاکستان کے سفیر یا اس کے مساوی کسی عہدے پر خدمات انجام دینے کے لیے آمادہ کرنا چاہا مگر راجہ صاحب نے انھیں بھی انکار کر دیا۔

سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی راجہ صاحب کے لیے بہت بڑا صدمہ تھی۔

خواجہ رضی حیدر نے لکھا ہے کہ ’راجہ صاحب کے لیے پاکستان کا دو نیم ہو جانا ایک ایسا المیہ تھا جس نے ان کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔

’وہ اسلامک سینٹر کے امور کی نگرانی نہایت تن دہی سے کرتے رہے لیکن جب جب پاکستان کا خیال ان کے دل میں آتا تو وہ ملول ہو جاتے۔

یہ بھی پڑھیں: تبدیلی سرکار نےعوام کی چیخیں نکال دی ہیں، اس حکومت نے عوام کو بھوک افلاس کے تحفہ دیئے،علامہ اقتدارنقوی

ایک ایسا شخص جس نے پاکستان کے قیام کے لیے اپنے روز و شب اور اپنی بے پناہ دولت کی کوئی پروا نہیں کی، جس نے اپنی صحت سے صرف نظر کیا اور مسلسل جدوجہد کرتا رہا، وہ سقوط ڈھاکہ پر بے یارو مدد گار دیار غیر میں آنسو بہاتا رہا، اس موقع پر نہ کوئی اس کی حوصلہ افزائی کرنے والا تھا اور نہ پرسہ دینے والا، بس وہ اکیلا اپنے غم کو سینے سے لگائے رکھے رہا۔‘

تیرہ اکتوبر 1973 کو انھیں دل کا شدید دورہ پڑا۔ انھیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ 24 گھنٹے سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے اور 14 اکتوبر 1973 کو 59 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

راجہ صاحب کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لندن سے تہران لائی گئی اور بعد ازاں اسے مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضاؑ کے مقبرے کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

مختار مسعود نے ’آواز دوست‘ میں لکھا ہے کہ: ’میری آٹو گراف البم میں ایک نواب کے علاوہ ایک راجہ کے دستخط بھی ہیں۔ نواب اور راجہ میں صرف نام کا فرق ہے۔ کہنے کو ایک مسلمان اور دوسرا ہندو ہوتا ہے مگر حرام پور کے حرم اور اندر کے اکھاڑے کا مسلک ایک ہوا کرتا ہے۔

’میں جس راجہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ شریف اور نجیب ہیں اور ان کا تعلق اودھ کی تعلق داری اور لکھنؤ کے امام باڑے سے ہے۔ ان کے والد ایک دردمند مسلمان رہنما تھے، ان کے انتقال کے بعد نوجوان راجہ کو جاگیر اور سیاست ورثے میں ملی، کچھ ترکہ دردمندی اور ہوش مندی کا بھی ان کے حصے آیا۔

’وہ جاگیر انڈیا میں چھوڑ آئے، سیاست پاکستان آکر خرچ کر دی، ہوش مندی ہنوز ان کے ساتھ ہے، دردمندی کا اب پتا نہیں ملتا۔‘

عقیل عباس جعفری
محقق و مؤرخ، کراچی

متعلقہ مضامین

Back to top button