دنیا

بعض مزید عرب ممالک کے ساتھ بھی در پردہ تعلقات ہیں، یائیر لبید

شیعیت نیوز: اسرئیل کے وزیر خارجہ یائیر لبید نے دعویٰ کیا کہ تل ابیب کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کرنے کے عمل میں ہے مگر انہیں ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا جس طرح امریکہ کی معاونت سے اسرائیل نے بحرین ، مراکش اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں اس طرح متعدد دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔

شمالی امریکہ کی یہودی فیڈریشنوں کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران مسٹر یائیر لبید نے کہا کہ ہم ان ممالک کے ساتھ نارملائزیشن معاہدوں پر دستخط کرنے کے عمل میں ہیں جو میں ابھی ظاہر نہیں کر سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدمات بحرین ، مراکش اور متحدہ عرب امارات کی طرز پر امریکہ کے تعاون سے کیے جا رہے ہیں اور حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ جس طرح ہم نے مذکورہ عرب ملکوں کے ساتھ حالیہ عرصے میں اپنے سفارت خانے قائم کیے ہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ایکسپو دبئی 2020 میں فلسطینی اتھارٹی کی شرکت قومی جرم ہے، ترجمان حماس

لبید نے گذشتہ ہفتے ایک صیہونی وزیر کےطورپر بحرین کا پہلا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ سے بھی ملاقات کی۔پچھلے سال15 ستمبر کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی اور موجودگی میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

دوسری جانب عبرانی ذرائع ابلاغ کے ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی اور امریکی سیکیورٹی حکام کا اہم اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہوا جس میں دونوں فریقوں کے درمیان انٹیلی جنس امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

سرکاری عبرانی ریڈیو سٹیشن کان نے بتایا کہ اس اجلاس میں اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ایئل ہلٹا اور ان کے امریکی ہم منصب جیک سلیوان شریک ہوئے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ یہ اجلاس ایرانی جوہری کے علاوہ کئی غیر متعین انٹیلی جنس امورپر بات چیت کی گئی۔

ریڈیو نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک غیرمعمولی اجلاس  جس میں اسرائیلی فریق کو مطلع کیا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ تہران کے ساتھ سفارتی نقطہ نظرکی پابند ہے لیکن جب ضروری ہوا تو وہ دوسرے آپشنز کا سہارا لے گا تاکہ تہران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکا جاسکے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے کے لیے کافی مقدار میں افزودہ یورینیم حاصل کرنے کے لیے جو عرصہ درکار تھا وہ ایک سال سے کم ہوگیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button