دو راہ حل تاکہ مارے نہ جائیں | آخری تحریر مولانا یوسف علی چنگیزی مرحوم

شیعیت نیوز: میں بغیر کسی مقدمہ کے آپ کے انتظار کو ختم کر دوں۔ سب سے آسان راہ حل اور شارٹ کٹ راہ حل وہ یہ کہ ہم شیعیت کو چھوڑ دیں، ہم خالص اسلام اور اصل اسلام کو چھوڑ دیں۔ ہم آغا خانی اور بوہری برادری کی طرح امام حسین و امام علی علیہما السلام کو ایسے مانیں کہ جو فقط عبادت کرتے تھے اور کسی سے ان کو کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یقین مانیں کہ کوئی آپ کو نہیں مارے گا، اگر کبھی کسی سے غلطی بھی ہو جائے تو آرمی چیف بھی آ کر معذرت کرے گا اور آئندہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہو گا۔
دوسرا راہ حل، شہادت کو افتخار سمجھیں، اسلام ناب و فکری شیعہ مکتب کو اپنے لیے افتخار سمجھیں، اور اپنے آپ کو مضبوط کریں اور جو بھی اس میدان میں اس وقت عمل کر رہا ہے بھلے وہ لنگڑا اندھا ہو لیکن میدان میں ہے تو اس سالم فرد سے بہتر ہے جو گھرمیں ہے کیونکہ خود خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ کھڑے ہوئے لوگ بیٹھے ہوئے لوگوں سے افضل ہے۔ اور وہی جذبہ خیبر شکنی و مرحب شکنی و حسینی لے کر ہر دور کے انتہاء پسندوں کے خلاف میدان میں اتر جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: حوزہ علمیہ قم کے ہونہارنوجوان پاکستانی طالبعلم مولانا یوسف چنگیزی داعی اجل کولبیک کہہ گئے
در اصل مسئلہ کی جڑ کہاں ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان آزاد ہوتا ہے 1947 کو۔ اس وقت سے لے کر اصل شیعہ مکتب کو دنیا کے سامنے آنے میں 1979 تک وقت لگتا ہے۔ اس وقت تک شیعہ ایک ایسی فکر کے حامل ہوتے ہیں کہ جس قدر مخالف فرقہ کی توہین و تذلیل کی جا سکے اتنا اچھا ہے اور ’ثواب‘ ہے۔ پھر 1979 کے بعد مکتب حسینی کو پاکستان آنے میں دس سال لگ جاتے ہیں، اور جب پہلے والے مکتب کے افراد کو کہا جاتا ہے کہ غلط کر رہے ہو تو دشمن ہوشیار ہو جاتا ہے کہ یہ تو اپنی قوم کو بیدار کر رہے ہیں۔ بس پھر شہید علامہ عارف حسین الحسینی سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور آج تک جاری ہے اور یقین مانیں، آرمی چیف بھی آ جائے اور بلکہ آرمی چیف بھی کوئی پکہ شیعہ آ جائے تب بھی ہم کو شہید کیا جاتا رہے گا۔ جس طرح عراق میں کیا جاتا رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نسل در نسل سینوں میں بغض حیدر کرار، خیبر شکن ہے، نسل در نسل بغض بنت نبی ہے، نسل در نسل آل زیاد و آل مروان کے حامی ہیں اور کسی حد تک اُس 1979 سے پہلے کے اسلام و شیعہ مکتب کا بھی قصور ہے جنہوں نے ان کو بغض بنانے میں ساتھ دیا اور آج تک وہی فکر دنبا میں علی الاعلان امریکہ و انلگیںڈ سے مختلف ممالک میں کام کر رہی ہے۔
ہر کوئی کہتا ہے کہ ہمیں قوی ہونا چاہیے ہمیں ہر میدان میں طاقتور ہونا چاہیے، بلکل، لیکن ذرا اپنے اعمال پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں بغض بنانے کے مواقع نہیں دینا چاہیے، ہمیں شہادت کو اپنے بچوں میں آخری خواہش اور آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا چاہیے، جہاں ہمارا کوئی فرد شہید ہو، اس دن کے بعد اس جگہ کو خالی نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں پر ہمارا خون بہے، اس جگہ پر شیعیان حیدر کرار کا قبضہ ہو جانا چاہیے، کیسے؟ اسی جگہ پر پہلے کی قوت سے زیادہ کام کرنا چاہیے۔ مثلا یہی کوئلہ کی کان میں اگر واقعہ ہوا ہے تو آس پاس کے کان بھی اب ہمارے حوالے کر دو، اگر ہمارے تاجر کو مارا جائے تو ہمارے تاجر زیادہ ہوں۔ اگر کوئی میدان میں عمل کر رہا ہے، اسے مضبوط کریں۔ نہ یہ کہ ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر الگ سے صرف بیان دیں۔ جن کا نتیجہ کچھ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ شہنشاہ حسین نقوی کے خلاف تکفیریوں کی مہم جوئی ، علامہ عارف واحدی کا اہم پیغام سامنے آگیا
ایک اور مسئلہ کی جانب اپنی نظر بیان کر دوں۔ بعض کہتے ہیں کہ ریاستی دہشتگردی ہے۔ ریاست کو ان مظلوم مزدوروں کو مار کر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں شہید علامہ عارف حسینی جیسے افراد کو شہید کرنا، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو شہید کرنا، شہید سبط جعفر زیدی جیسے افراد کو شہید کرنا بلکل بلکل بلکل ریاستی دہشتگردی ہے۔ لیکن مزدوروں کو شہید کرنا، ایک قوم کے سو کے قریب افراد کو ایک دم سے شہید کرنا ریاستی دہشتگردی نہیں اور نہ ہی ریاستی سپورٹ ہے۔ بات وہی ہے کہ بغض حیدر ہے اور جہاں شکل ہی حیدری ہونے کا ثبوت ہو (کہ میرے لئے ہر چیز سے بالاتر باعث افتخار ہے) تو وہاں شمر و حرملہ جیسے افراد بھی ہوتے ہیں۔ بعض ملک ری کے لیے بعض بغض حیدر میں قربۃ الی اللہ کے لیے۔ اب شاید یہ فکر خود ریاست میں بھی کچھ افراد کے اندر ہو لیکن خود ریاست میں نہیں۔ دوسرا عجیب قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ ہمیں ریاست مار رہی ہے اور پھر اسی ریاست سے کہتے ہیں کہ ہماری حفاظت کرو۔ یعنی اگر میرے گھر میں کوئی قتل کرے، میں قاتل سے کہوں کہ آو ہمارے گھر کی حفاظت کرو۔ پس یا تو قاتل نہیں یا پھر محافظ نہیں۔
آخر میں مصباح دل ھا آیت اللہ مصباح یزدی رح سے کسی نے وعظ و نصیحت کا سوال کیا تو استاد دل ھا نے فرمایا کہ بہترین، آسان ترین اور شیرین ترین کام یہ ہے کہ وجود امام زمان عج پر توجہ کریں۔ ہم بھی امام عصر عج سے درخواست کرتے ہیں کہ آج بھی آپ کے محبوں کو آپ کے جد ع کی طرح ذبح کیا جاتا ہے۔ العجل یا مولا، آ جائیں ہماری مدد فرمائیں۔
تحریر: یوسف علی چنگیزی(عثمان صوفی)قم القدسہ