اہم ترین خبریںمقالہ جات

کربلا اور ہمارا نصاب |تحریر : زرتاج گل| وفاقی وزیر مملکت برائے ماحولیات

ایف ایم پر آر جے کی سسکیاں لیتی آواز تھی اور واقعہ کربلا تھا، اتنا ظلم اس حد تک کہ جس کی کوئی حد نہیں، اور پھر اتنا صبر اس حد تک کہ جس کی کوئی حد نہیں

شیعیت نیوز: بچپن میں جب محرم کے دن آتے تو محلے میں پانی کی سبیلیں بنائی جاتیں، اماں پورے دس دن بڑے سے برتن میں مختلف قسم کے شربت بناتیں اور ہم بابا کیساتھ ملکر سارے محلے میں وہ شربت بانٹتے، پھر دس محرم کو حلیم بنتا، یہ وہ واحد جلوس تھا جہاں ہمیں جانے سے روک دیا جاتا ، ہمیں ایک نام پتا تھا تب شیعہ اور اس نام کا خوف اتنا تھا، محرم میں سیاہ لباس پہننے سے گریز کیا جاتا کہ یہ رنگ ان دنوں بس شیعہ کی پہچان تھی!!

ہم سنی ہیں اور وہ شیعہ ہمیں بس اتنا پتا تھا، ہم سنی اور وہ شیعہ ہیں تو کیوں ہیں؟ اس بات سے ہم لاعلم تھے پھر جب شفٹنگ کے بعد نئے اسکول میں جانا پڑا تو وہاں پہلی بار شیعہ لوگوں سے سامنا ہوا، محرم کے دنوں میں معلوم ہوا کہ میری فیورٹ ٹیچر شیعہ ہیں ، مجھ سے پچھلی نشست پر بیٹھنے والی میری فرینڈ شیعہ ہے، مجالس کیا ہوتی ہیں، اور وہاں کیا ہوتا ہے سب چھٹی کلاس میں معلوم ہوا،

نویں اور دسویں محرم کے روزے رکھنے شروع کئے، پھر جب دو سال گزرے تو تجسس تیسرے سال حد سے سوا ہوگیا، اس بارے میں اماں سے پوچھا تو میری ان پڑھ جھلی اماں نے ایک لفظ کافر ہیں کہہ کر چپ کروا دیا، بابا نے اتنا بتایا کہ حضرت امام حسین نواسہ رسول ﷺ کے خاندان کو شہید کردیا گیا تھا،

یہ بھی پڑھیں: غیور شیعیان حیدرکرارؑ نے ملعون یزید ابن معاویہ کے حامیوں کے خلاف کمر کس لی،قانونی میدان میں مقابلے کا فیصلہ

اصل کربلا ہے کیا ، یہ تب معلوم ہوا جب آٹھویں جماعت میں محرم کی دو چھٹیاں ہوئیں، دس محرم کو گھر پر ٹی وی بند ہوتا کہ ٹی وی پر بھی شیعہ لوگ تھے، دس محرم صبح دس بجے یونہی ریڈیو پر ایف ایم 101 پر کوئی آواز سنی تو ٹھہر گئی، موضوع بتایا گیا
واقعہ کربلا تب پہلی بار معلوم ہوا یزید کون تھا ابن زیاد کون تھا، پانی کیوں بند کیا گیا اور کس حد تک بند کیا گیا، علی اصغر کون تھے، بی بی سکینہ کون تھیں، بی بی زینب کی بددعا کیا تھی اور کیوں تھی،

اس دن اس وقت اس لمحے، ہر چیز ٹھہر گئی تھی، آنسو کسی سیلابی ریلے کی طرح آنکھوں سے نکل کر جھولی میں جذب ہورہے تھے،
بات ظلم سے شروع ہوکر شہادت پر ختم ہوئی،

ایف ایم پر آر جے کی سسکیاں لیتی آواز تھی اور واقعہ کربلا تھا، اتنا ظلم اس حد تک کہ جس کی کوئی حد نہیں، اور پھر اتنا صبر اس حد تک کہ جس کی کوئی حد نہیں، اس دن پہلی بار مجھے روزہ کھولنے کا انتظار نہیں رہا، پانی کو دیکھ کر ہچکیاں لے کر رویی شام غریباں نے کئی دن مجھے خود میں جکڑے رکھا،سارا منظر خود بخود آنکھوں کے سامنے بنتا گیا، ننھے علی اصغر کی پیاس ، حضرت امام حسین کی فجر کی نماز، بازار کوفہ، بی بی زینب کی دربار یزید میں حاضری، شہدائے کربلا کے سر!!
ماتم کی بات نہیں آنسووں کی بات ہورہی ہے، ویسے ہی جیسے جب کوئی ہمارا فوجی جوان شہید ہوتا ہے تو اس پر آنے والے مصائب پر پہلے ہماری آنکھوں سے آنسو آتے ہیں پھر شہادت پر صبر آجاتا ہے،
نواسہ رسولﷺ ، وہ جنہیں ہمارے پیارے نبی نے اپنی نماز کے دوران پیٹھ پر بٹھائے رکھا اور سجدہ لمبا کردیا، انہیں کسطرح سے شہید کیا گیا_

اللہ سوہنا اگر چاہتا تو کیا یزید اور اسکے ساتھیوں کو نیست و نابود کرنا ناممکن تھا؟
امام حسین کے صبر میں ہمارے لئے سبق رکھا گیا تھا مگر ہم نے اپنے بچوں کو بوڑھا کرکے بتانا ہے،

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سربراہ ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس کے درمیان اہم ملاقات

ہمارے نصاب میں واقعہ کربلا کیوں نہیں ہے؟ ہم اپنے بچوں کو صبر کی اس عظیم شان سے دور کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ کل بھی ٹیوشن سے آئے بچوں سے پوچھا تو سب خاموشی سے نظریں جھکا گئے، ہم اپنے بچوں کو اسکولوں میں ہر قسم کی نصابی غیر نصابی سرگرمیاں کرواتے ہیں تو پھر ہم اپنے بچوں کو دین کے اس عظیم الشان صبر کی مثال کیوں نہیں سمجھا رہے؟

فیڈرل بورڈ سے پڑھی ہوں میں اور وہاں نصاب میں شامل نہیں اور یہاں پنجاب بورڈ میں چھٹی جماعت تک تو میں دیکھ چکی ہوں اس میں واقعہ کربلا نہیں ہے

ہمارے نصاب میں واقعہ کربلا کیوں نہیں ہے؟
اور اگر ہے تو ہمارے بچے لاعلم کیوں ہیں؟

کوئی انہیں صحیح سے سمجھا نہیں پاتا یہاں تک کہ بچے بڑے ہوکر خود کوشش کرتے ہیں سمجھنے کی یاپھر کچھ تو ایسے ہیں ابھی بھی لاعلم_

بات صرف اتنی ہے کہ دین سمجھائیں نفرتیں نا بڑھائیں!!

میرے لفظوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت!!

متعلقہ مضامین

Back to top button