دنیا

گوگل اور ایمازون نے امریکہ سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا

شیعیت نیوز : امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل اور ایمازون کے ملازمین اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والے شہریوں نے امریکی حکام سے اسرائیل کے ساتھ اپنے رابطے توڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی جریدے پولیٹکو کے مطابق، ایمازون اور گوگل جیسی کمپنیوں کے ملازمین نے اپنے بیان میں امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر اس غاصب حکومت کے ساتھ ہر قسم کے رابطے منقطع کر لیں۔

اس بیان میں غزہ میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے دوران اسرائیل کے بائیکاٹ کی اپیلوں پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر بھی کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : کیا متحدہ امارات کا حال بھی سعودی عرب جیسا ہونے والا ہے؟

غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کے بعد، گوگل اور ایمازون نے صیہونی حکومت کو خدمات کی فراہمی پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا تھا۔ مذکورہ امریکی کمپنیوں نے، اسرائیل کے مفادات میں پیش کیے جانے والے پینٹاگون کے ایک منصوبے کو بھی عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔

ایسا اس وقت ہوا جب صدر جو بائیڈن کو بعض ڈیموکریٹ ارکان کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دوسری جانب جرمن میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ ڈینمارک کی مدد سے مرکل اور اشٹائن مائر کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : صیہونی فوج نے جنگ نہیں، بلکہ فلسطینی خاندانوں کا اجتماعی قتل عام کیا، دیوان المظالم

جرمنی کے میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی جرمن چانسلر سمیت دیگر یورپی حکام کی جاسوسی کے سلسلے میں امریکہ کی قومی سلامتی کی ایجنسی کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔

فارس نیوز کے مطابق معروف ترین نیوز چينل ڈویچہ ولہ نے بتایا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں کی جاسوسی کرنے کا معاملہ سنہ 2013 سامنے آیا تھا، تاہم اب میڈیا رپورٹروں کو اس حوالے سے مزید اطلاعات ملی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی کا اتحادی اور قریبی ترین ملک ڈنمارک جرمنی کی چانسلر اور صدر کی جاسوسی کے لئے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتا رہا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ نے امریکہ کے معتدل سیاسی رہنما اور صدارتی امیدوار "پیئر اشٹینبرگ” کی بھی جاسوسی کی ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ مرکل اور اشٹائن میں سے کسی کو بھی اس بات کی اطلاع نہیں تھی کہ ڈنمارک کے اعلی حکام ان کے خلاف جاسوسی کے آّپریشن میں شریک ہيں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button