اہم ترین خبریںپاکستان

فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خون پرترکی وعرب ممالک کی تجارت کو ترجیح،41 ملکی فوجی اتحاد بھی غائب

سعودی عرب نے اپنے تحفظ اور یمن کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے 41 ممالک پر مشتمل فوج بنا رکھی لیکن فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر چپ سادھ رکھی ہے

شیعیت نیوز: ان دنوں قبلہ اوّل بیت المقدس اور نہتے فلسطینی مسلمان غاصب صیہونی افواج کے ظلم وبربریت کا پہلے سے زیادہ سامنا کررہے ہیں غزہ پر بمباری کرکے اسے کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا ہے ، دنیا بھرمیں اسرائیل کی جنایت کاریوں کے خلاف غیرت مند مسلمان سراپا احتجاج ہیں تو دوسری جانب فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خون پرترکی وعرب ممالک کی تجارت کو ترجیح جاری ہے،جبکہ سعودی ولی عہد کا41 ملکی فوجی اتحاد بھی منظر عام سے غائب ہےجس کی قیادت جنرل ر راحیل شریف کے پاس ہے ۔

برطانیہ اور امریکا کی زیرسرپرستی اسرائیل کا ناجائز قیام 1948 میں عمل لایا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینیوں پر ان کی زمین ہی تنگ کی جاچکی ہے۔ اسرائیل میں رہ جانے والے فلسطینیوں کو صیہونیوں جیسی مراعات میسر نہیں۔ گھر ہیں اور نہ تعلیم کی سہولتیں۔ اب شیخ جراح سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کیا جارہا ہے۔

دوسری طرف مسلمان ممالک ہیں جو اسرائیل کے ساتھ گہرے تجارتی روابط سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی نے1949ہی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیاں متعدد بار تعلقات منقطع ہوئے لیکن تجارت چلتی رہی۔ اب آخری بار 2018 میں امریکا کی جانب سے اسرائیل کا دارلحکومت تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے پر ترکی نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امت مسلمہ کیلئے اچھی خبر واحد اسلامی ایٹمی مملکت کے سربراہ کا فلسطینی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ

ترکی اور اسرائیل کے درمیان 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی دوطرفہ تجارت ہوتی ہے۔ ترکی اسرائیل کا چھٹا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی عرب کی طرح ترکی بھی بیت المقدس کی نگہبانی کی خواہش رکھتا ہے اس وقت یہ زمہ داریاں اردن انجام دے رہا ہے۔

عرب اور اسرائیل کے درمیان اگست 2020 میں سفارتی تعلقات بحال ہونے سے خطے کی سیاست اہم موڑ لے چکا ہے۔اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاہدہ کے بعد ترکی کی سیاحت اور ائیرلائنز انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پہلے متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر اور سوڈان سے براہ راست پروازیں نہیں تھیں اب انہوں نے بھی براہ راست پروازیں شروع کر دی ہیں۔

اسرائیل اور متعدہ عرب امارات پہلے مرحلے میں دو طرفہ تجارت کا حجم سالانہ 4 ارب ڈالر تک لے جانے کے خواہش مند ہیں۔
بحرین کے بزنس چیمبر نے بھی اسرائیلی چیمبر کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ بحرین ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا زریعہ ہے۔ گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست مسلمان ممالک کے دباؤ کی وجہ سے تعلقات قائم نہیں ہو سکے لیکن کہتے ہیں عرب ممالک اس کے کہنے پر اسرائیل کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اپنی تمام فوج میدان میں لے آئے ایسی موت ماریں گےکہ صیہونیوں کی نسلیں یاد رکھیں گی

اسرائیل فوج کی بمباری سے 21 فلسطینی شہید 300 سے زائد زخمی اسی طرح مصر،اردن اور دیگر عرب ممالک کے بھی براہ راست سفارتی و تجارتی تعلقات قائم تھے ،بات یہ ہے کہ اسرائیل کی آبادی 92 لاکھ ہے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مزہب اسلام اس کے پیروکاروں کی تعداد 2 ارب سے زیادہ ہے۔ پھر بھی مسلمان ممالک باالخصوص عرب اقوام فلسطینیوں پر مظالم کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہیں۔اسے امت مسلمہ کا المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہا جائے کہ چھوٹے سے ناجائز ملک اسرائیل آبادی اور دولت کی بھرمار ہونے کے باوجود سب کو بے حس کر کے پیچھے لگا رکھا ہے۔

سعودی عرب نے اپنے تحفظ اور یمن کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے 41 ممالک پر مشتمل فوج بنا رکھی لیکن فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر چپ سادھ رکھی ہے۔ فوج کی سپہ سالاری کی پاکستان فوج کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو سونپی ہوئی ہے۔طاقت رکھ کر بھی اس کا جائز استعمال نہ کرنے کو بزدلی اور بے حسی کہا جاتا ہے۔ اسی بزدلی اور بے حسی کی وجہ سے فلسطینی اور کشمیری عوام روز جیتے اور روز مرتے ہیں لیکن مسلمان ممالک اسرائیل اور بھارت کے ساتھ تجارت میں مصروف ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button