عراق

امریکہ کا دفاعی سسٹم ناکام، عین الاسد فوجی اڈے پر ڈرون حملہ

شیعیت نیوز: عراق میں امریکہ کے باوردی دہشت گردوں کے عین الاسد فوجی اڈے پر راکٹ سے حملہ ہوا ہے۔

عراقی نیوز ایجنسیوں نے ہفتے کی صج صوبہ الانبار میں واقع امریکہ کے عین الاسد فوجی اڈے پر راکٹ داغے جانے کی خبر دی ہے۔

اطلاعات کے مطابق فوجی اڈے کی حفاظت کے لئے حال ہی نصب کیا جانے والا دفاعی سسٹم راکٹوں کو تباہ نہیں کرسکا۔

المسیرہ نیوز کے مطابق عین الاسد فوجی اڈے پر حملہ ڈرونز کے ذریعے کیا گیا جبکہ بعض دیگر ذرائع نے بھی بتایا ہے کہ عین الاسد کو بارودی ڈرونز‍ کے ذریعے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان حملوں کی تصدیق کی صورت میں یہ حالیہ چند روز کے دوران امریکہ کے باوردی دہشت گردوں کے خلاف انجام پانے والا دوسرا حملہ ہے۔

عراق کے خبری ذرائع نے منگل کی شام بھی اسی طرح کے حملوں کی خبریں دی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں : ایران کی مسجد الاقصی پر اسرائیلی فوجیوں کے حملے کی مذمت

دوسری جانب عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے مخالف اداروں نے امریکی فوجیوں کو طاقت کا استعمال کرکے عراق سے بھگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ جنوری 2020 میں ایک قرارد منظور کرکے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر تاکید کر چکی ہے۔

یہ خبر آئی کہ عین الاسد فوجی اڈے پر تین دن کے اندر تین حملے ہوئے اور حملے تب ہوئے جب امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے امور کے نمائندے بریٹ میک گورک ایک وفد کے ساتھ بغداد کے دورے پر پہنچے ہیں۔

وہ عراق کی مصطفی الکاظمی حکومت سے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے مسئلے پر گفتگو کریں گے۔

حالیہ حملہ جس میں کسی کی جان نہیں گئی، بائیڈن کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک وہاں 30واں حملہ تھا۔

شاید سب سے خطرناک حملہ وہ تھا جو شمالی عراق کے شہر اربیل میں امریکی چھاؤنی پر ڈرون طیارے سے کیا گیا تھا۔ اس حملے میں دو غیر ملکیوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی قابل توجہ مسئلہ ہے کہ یہ کشیدگی تب بڑھ رہی ہے جب امریکی میڈیا میں یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ویانا میں ایٹمی مسئلے پر مذاکرات سخت مرحلے سے گزر رہے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لئے تیار نہیں ہے۔ عراقی فورسز کی ٹریننگ جیسے بہانے سے وہ عراق میں اپنے فوجیوں کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اگر حملے اسی طرح جاری رہے تو امریکہ کے لئے عراق میں رک پانا نا ممکن ہو جائے گا۔

عراق سے امریکہ کو شرمناک طریقے سے نکلنا پڑے گا جس طرح 2011 میں عراقیوں کے حملے سے ڈر کر اسے عراق سے فرار ہونا پڑا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button