اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

پاکستانی قوم کی موجودہ جوان نسل کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی ایران سے پاکستانیوں کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

حصہ اول

پڑوسی برادرملک ایران میں فروری 1979ع میں کامیاب انقلاب اسلامی برپا ہوا۔ اس انقلاب کی قیادت آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی المعروف امام خمینی نے کی۔ البتہ یہ قیادت امام خمینی ؒ نے طویل جلاوطنی کی کٹھن زندگی گذارتے ہوئے کی۔ وہ دور آڈیو کیسٹ کا تھا۔

زمانہ خاک سمجھے گا جو رفعت فاطمہؑ کی ہے

امام خمینیؒ کی تقاریر پر مشتمل آڈیو کیسٹ ایران کے اندر انقلابی علماء اور انکے حامی تقسیم کیا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے انقلاب کو کیسٹ ریوولوشن بھی کہا جاتا ہے۔

انقلاب اور پاکستان کا گہرا تعلق

پاکستانی قوم کی موجودہ جوان نسل کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی ایران سے پاکستانیوں کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ جس وقت امام خمینی ؒ فرانس کے شہر نوفل لوشاتو میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے تب بھی وہاں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما ء ان سے ملتے رہے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ جنرل ایوب خان دور حکومت کے سابق بیورو کریٹ اور نام ور دانشور الطاف گوہر نے بھی شاہ ایران کے دور میں ہی امام خمینیؒ اور انقلابی تحریک سے متعلق ایک برطانوی روزنامہ میں کالم لکھا تھا جس پر شاہ ایران ان سے ناراض رہا کرتا تھا۔

علامہ اقبال کے افکار کی جھلک

انقلاب اسلامی ایران میں پاکستان کی نظریاتی ملت کو علامہ اقبال کے افکار کی جھلک اور انکی پیشن گوئیوں کی حقانیت نظر آئی۔ یہ سب کچھ بیان کرنا اس تحریر کا مقصود نہیں۔ بلکہ مقصود انقلاب اسلامی سے متعلق اس وقت کے ایسے پاکستانی سفارتکار کی بیان کردہ روداد نقل کرنا ہے جو اس وقت تہران میں ای سی او کے صدر دفتر میں تعینات تھے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

گوکہ وہ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے پاکستان کے اندرانتظامی عہدوں پرخدمات انجام دیتے رہے، تہران میں پاکستانی سفارتکار کی حیثیت سے ای سی او میں نمائندگی کرتے رہے لیکن وہ پاکستان کے اردو ادب کے ایک نام ور ادیب بھی تھے۔ جی ہاں، مختار مسعود صاحب کہ جو انقلابی مراحل کے چشم دید گواہ تھے۔

تہران میں دولت کی نمائش

انقلاب اسلامی سے پہلے کے ایران کے بارے میں لکھا کہ ”ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایران کو دولت خرچ کرنے اور ضایع کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ دولت کمانے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی، ساری محنت دولت کے استعمال کے لئے وقف ہے۔“

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق

”دنیا کے ہر کونے سے ہر قسم کی چیز درآمد ہو رہی ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ دولت مند ضرورت کو نہیں دیکھتا۔ صرف اپنی قوت خرید کی نمائش کرتا ہے اور اسی قسم کی نمائش کا نتیجہ ہے کہ لالہ زار ایران اب گل لالہ درآمد کرتا ہے۔ گرہ دار لالہ ہالینڈ سے چلتا ہے اور ایران میں آکر کھلتا ہے۔

ترقی نہیں تباہی

ایران کے قومی پھول کو لالہ نہیں ڈالر کہتے ہیں۔ ڈالر جس کی کھلے بندوں نمائش پاکستان کے زرمبادلہ کے قانون کے خلاف ہے، یہان فٹ پاتھ پر اگتا ہے۔ ایران کی اس صورت حال کو دیکھ کر اس کا پورا پورا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ترقی یافتہ ملکوں کے نمائندے بھی انگشت بہ دنداں ہیں۔

یہ ولولہ ہے یا ہنگامہ۔ حرکت ہے یا حماقت۔ ترقی ہے یا تباہی۔ جو کچھ بھی ہے اس کی رفتار بہت تیز ہے۔ میں نے گل و بلبل والے افسانوی ایران سے ڈالر اور دولت والے ایران کا سفر صرف ایک دن میں طے کرلیا۔

وسائل کا غیر ضروری استعمال

کسی نے ایران کا منہ دولت سے اتنا بھر دیا ہے کہ دم گھٹنے لگا ہے۔ تہران میں موٹروں کی کثرت سے اکثر راہ بندی ہوجاتی ہے۔ جتنی موٹریں اس شہر میں ہیں، اتنی سارے پاکستان میں نہیں۔ نئی سڑکیں بھی اس کی تعداد کے لئے ناکافی ہیں۔“

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

”گھروں کے اندرونی حصہ میں اندھیرا کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ اسے دور کرنے کے لئے بجلی کا استعمال بے دردی سے کیا جاتا ہے۔ جو اندھیرا ایک بلب کی روشنی سے دور ہوسکتا ہے، اس کی پسپائی کے لئے تین چار بلب روشن کر دیتے ہیں۔ جہاں تین چار کی ضرورت ہو، وہاں پندرہ بیس قمقمے لگا دیتے ہیں۔ میں نے ایک گھر میں پینتالیس فانوس اور ان سے ملتی جلتی دیوار گیر روشنیاں شمار کی تھیں۔“

شراب ہر گھر میں

”ہر گھر میں مے نوشی کے لئے بار بنی ہوئی ہے۔ صراحی اور ساغر قطار اندر قطار سجے ہوئے ہیں۔ مشروبات کی لبالب اور سربمہر بوتلوں کے ساتھ ادھ بھری اور تقریباً خالی بوتلیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ گھریلو مے خانے کی دیوار پر خیام کی رباعی لکھی ہوئی ہے، ان کے گھروں میں پالتو جانور بہت کم ہیں، بچے ان سے بھی کم۔

کتابیں نہ ہونے کے برابر

اور کتابیں نہ ہونے کے برابر۔ سویڈن کے سفیر نے بتایا کہ ایران کی پچھلی حکومت بجلی کی کمی کی وجہ سے ناکام ہوئی۔ ہر روز بجلی باربار بند ہوجاتی اور لوگ ایک آدھ گھنٹہ لفٹ میں پھنسے رہتے۔

شاہ ایران کے دور کا ماہ رمضان

”رمضان کا مہینہ آیا۔ دبے پاؤں اور خاموشی کے ساتھ۔ اس مہمان کی طرح جو ناوقت آمد کی وجہ سے خود اپنے آپ سے شرمندہ ہو۔ نہ دفتروں کے اوقات کار تبدیل ہوئے نہ بازاروں میں کوئی اہتمام دیکھنے میں آیا۔ نہ احترام رمضان کی سرکاری اپیل۔ نہ فضائل رمضان پر اخبار کا ضمیمہ۔ نہ دن کو ٹھیلوں پر کھجوریں بیچنے والے۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سحر و افطار کی خبر لانے والے سائرن نے بھی چپ سادھ لی۔ میں نے ماہ رمضان کو اتنی خاموشی سے آتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

غلط اندازے

”خیال تھا کہ رمضان کی آمد آمد کی وجہ سے حالات سدھر جائیں گے۔ تہران میں زندگی معمول کے مطابق بسر ہوگی۔ لوگ نماز روزہ میں لگ جائیں گے۔۔۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے جلوس جو گاہے تہران یونیورسٹی کی طرف خاموشی سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں، اب مہینہ بھر چھٹی منائیں گے۔ جو کچھ ہونا ہے وہ عیدالفطر کے بعد ہوگا۔

شاہ ایران کے خلاف تحریک

میں بھی ان لوگوں کا ہم خیال تھا اور میری رائے محض اس لئے معتبر سمجھی جاتی تھی کہ صاحب ضلع کی حیثیت سے مجھے بلوے اور غوغا کا تھوڑا بہت تجربہ تھا۔ یہ پاکستانی تجربہ ایرانی حالات کے تجزیہ کے لئے اتنا کار آمد ثابت نہ ہوا جتنا میرا خیال تھا۔ ہم سب اور ہمارے سارے اندازے غلط نکلے۔ شہنشاہ کے خلاف جو محدود اور کمزور سی تحریک چل رہی تھی، وہ ماہ رمضان میں دن بدن زور پکڑتی چلی گئی۔“

کریک ڈاؤن، گرفتاریاں

”انتظامیہ کے رویے میں سختی آگئی۔ مظاہرین کا رویہ بھی بدل گیا۔ بھاگنے کے بجائے گرفتاریاں دینے لگے۔ آنسو گیس چھوڑی گئی تو منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے اس گیس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے آنسوؤں کا تار ایک طویل مدت سے بندھا ہوا ہے۔ آگ لگی، سینما، بینک، ہوٹل اور دفاتر جلے۔ گولی چلی۔ لوگ بڑی تعداد میں مرنے لگے۔

مساجد کی حرمت بھی پامال

زخمیوں کا تعاقب کرتے ہوئے انتظامیہ جوتوں سمیت تہران اور کرمان کی مساجد میں داخل ہوگئی۔ بے ادبی کے اس واقعہ کے بعد فوجی فل بوٹ کی دھمک صاف سنائی دینے لگی۔

تبدیلی

”اگست، ستمبر اکتوبر، نومبر، کل چار ماہ ہوئے۔ یہ کوئی ایسی بڑی مدت نہیں سو سوا سو دن ہی تو بنتے ہیں لیکن تبدیلی بہت بڑی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان سترہ ہفتوں میں وہ ایک دنیا جو مدت سے یہاں آباد تھی اور بڑی پائیدار لگتی تھی، ادھر سے ادھر ہوگئی ہے۔“ ”سب سے نمایاں تبدیلی خواص کے قدم اور عوام کے ہاتھ میں آئی ہے۔ وہ ڈگمگا گئے ہیں، یہ لمبے ہوگئے ہیں۔“ ایک بہت بڑی تبدیلی عوام میں بھی آگئی ہے۔

مرگ بر شاہ کے نعرے

شہنشاہیت کی تیز روشنی میں ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا تھا۔ خوف کے مارے ان کی زبان بند تھی۔ اب وہ دیکھ سکتے ہیں۔۔۔کہ بادشاہت ختم ہونے والی ہے۔ اب وہ بول سکتے ہیں۔ مرگ بر شاہ کا نعرہ لگا سکتے ہیں۔“ ”اس نئے ماحول میں نئے نئے نام سننے میں آرہے ہیں۔۔ ایسے ایسے نام جنہیں چند دن پہلے زبان پر لانا جرم تھا۔

شاہی خاندان کوڑے کے ڈھیر پر

یہ نئے نام اب زبان پر آگئے ہیں۔“ ”رضا شاہ، شاہ رضا، مادر ملکہ، اشرف پہلوی، یہ نام کتنے پرانے لگتے ہیں۔۔۔۔؛ یہ سب باسی پھولوں کے نام ہیں، جنہیں صفائی کے وقت جھاڑو پھیر کر جمع کرتے ہیں اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتے ہیں۔ نئے پھولوں کے لئے خود بخود جگہ بن گئی ہے۔ جگہ جگہ ان کا ذکر ہو رہا ہے۔

آیت اللہ روح اللہ خمینی سب سے تازہ اور تابندہ نام

خمینی، طالقانی، مطہری، بہشتی، خامنہ ای، رفسنجانی۔ ان سب کا تعلق قم کے مدرسوں سے ہے۔ ایک نام شریعتی کا بھی ہے۔“ ”میں ان ناموں پر غور کرتا ہوں۔ ان کے علاوہ بے شمار نئے اور پرانے ناموں پر غور کرتا ہوں۔ بالآخر دو ناموں پر آکر ٹھہر جاتا ہوں۔ آج کل ایران میں سب سے پرانا اور فرسودہ نام شہنشاہ رضا شاہ کا ہے اور سب سے تازہ اور تابندہ نام آیت اللہ روح اللہ خمینی کا ہے۔“

ٍسال 1978ع کا اختتام

آج 31دسمبر ہے۔ یہ سال بھی کیسا سال ہے۔ طلوع ہوا تو ایران کا شہنشاہ امریکا کے صدر کارٹر کے ہمراہ جشن رقص و سرودمیں شامل تھا۔ اور ختم ہوا تو بادشاہ کی چھٹی کے اعلان کے ساتھ۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی
Israel controls United States thru Jewish officials in Biden administration ?

متعلقہ مضامین

Back to top button