مقبوضہ فلسطین

اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ’’ سیاسی جرم اور غلطی‘‘ ہے، اسماعیل ھنیہ

شیعیت نیوز: اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے 30 مسلمان اور عرب ممالک کے سربراہان کو مکتوب ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے ان ملکوں کی قیادت سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار نہ کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بڑا سیاسی جرم اور غلطی ہے جو فلسطینی قوم کے حقوق کی قیمت پر کی جا رہی ہے۔

اپنے مکتوب میں اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ اس وقت قضیہ فلسطین کے حال، مستقبل اور اس کے وجود کو سنگین اور غیرمعمولی خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں۔ قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے ہمارے وطن عزیز، ہماری قوم اور ریاست کے باشندوں کے خلاف بلا تفریق دہشت گردی جاری ہے۔ غزہ کی  ظالمانہ ناکہ بندی کئی سال سے بدستور قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی مشترکہ عسکری مشقوں میں دشمن کے لیے پیغام

قابض ریاست اپنے مجرمانہ منصوبے بالخصوص یہودی آباد کاری، فلسطینی علاقوں کے الحاق، زمینوں پر غاصبانہ قبضے، القدس کو یہودیانے، مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم، القدس میں عرب ،اسلامی اور مسیحی آثار کو مٹانے، گھروں کی مسماری، فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے، انہیں شہر سے بے دخل کرنے اور زندانوں میں قید فلسطینیوں پر جبرو تشدد کے حربے بڑھتے جا رہے ہیں۔

بعض عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانےکے حوالے سے ہونے والے معاہدوں کو بھی حماس خاص اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ ان سمجھوتوں پر گہرے افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ عرب لیگ میں قضیہ فلسطین کی حمایت میں قرارداد کی ناکامی بھی  مقام افسوس ہے۔

یہ المیہ ہے کہ عرب لیگ میں اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات معمول پرلانے کے خلاف مذمتی قرارداد کو ناکام بنا دیا گیا۔ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے اور عرب لیگ میں اسرائیل مخالف قرارداد کی ناکامی نے قابض ریاست کو ارض فلسطین، فلسطینی قوم اور فلسطینی تحریک آزادی کو دبانے کی مزید حوصلہ افزائی فراہم کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عرب حکومتوں کے اسرائیل کے حوالے سے تبدیل ہوتے طرز عمل کو نہ صرف فلسطینی قوم بلکہ تمام عرب اقوام کی طرف سے مسترد کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : وزیر اعظم عمران خان سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اہم ملاقات

متحدہ عرب امارات، بحرین، جمہوریہ سوڈان اور اس کے بعد مراکش کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ناقابل قبول دوڑ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دوسری طرف قابض اسرائیلی دشمن ہماری زمین، قوم، ہماری مقدسات کے خلاف جارحانہ عزائم پر عمل پیرا ہے۔ ایسے میں ہم دفاع فلسطین اور ہمارے منصفانہ قضیے، فلسطینی قوم کے تحفظ، قابض ریاست کے قبضے، یہودی آباد کاری، فلسطینی شہروں کو یہودیانے اور دیگر مکروہ جرائم کی روک تھام کے لیے مسلم امہ کو اس کی تاریخی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔

فلسطینی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے حماس عرب اور مسلمان ممالک کو اسرائیلی ریاست کے خطرناک عزائم کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ہم واضح کررہے ہیں کہ قابض ریاست حالات سے فائدہ اٹھا کر ارض فلسطینی، فلسطینی قوم، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنے جرائم کو آگے بڑھا رہی ہے۔

غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بہت بڑی سیاسی غلطی اور مسلم امہ کے مفادات اور قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا ایک تباہ کن تزویراتی حماقت ہے جو قضیہ فلسطین کےلیے غیرمعمولی خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری قوم اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔

ارض فلسطین پر قائم صیہونی ریاست پوری مسلم امہ کا اجتماعی اور مشترکہ دشمن ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کے قیام کا مقصد دشمن کو مسلم امہ کے اجتماعی مفادات تک رسائی دینے اور مسلمان ممالک کی قومی سلامتی میں دشمن کو نقب لگانے کا موقع دینے کے مترادف ہے۔

اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم ’’او آئی سی‘‘ کے وضع کردہ اصولوں اور ان اداروں میں منظور ہونے والی قرارداودں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کے لیے مسلمان اور عرب ملکوں کے دروازے کھلنے سے مسلم دنیا کی جسد میں دشمن کوگہرا گھائو لگانے اور تزویراتی گہرائی تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قابض اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے سے صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا جب کہ عرب اور مسلمان ممالک کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسرائیل سے دوستانہ مراسم قائم کرنے والے ممالک مستقل خسارے میں رہیں گے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام سے ظاہرہوتا ہے کہ بعض طاقتیں سیاسی بلیک میلنگ، نام نہاد اقتصادی اور معاشی فوائد کے سبز باغ دکھا کر مسلمان ملکوں کو اسرائیل کے قریب کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل سے دوستی کی پیش رفت انتہا پسند صہیونی لیڈرشپ کی کم زوری کو قوت میں بدلنے کا ثبوت ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا قیام فلسطینی قوم کے حقوق، قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کی کوششوں، مسلم امہ کے حال اور مستقبل کے مفادات کی قیمت پر ہو رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button