اہم ترین خبریںپاکستان

سندھ پولیس کی شیعہ دشمنی ، دوماہ سے اغواءدو جوانوں پرقتل کے15جعلی مقدمات قائم کردیئے

پولیس کی جانب سے جامعہ بنوریہ کے مولانا یوسف لدھیانوی کی ٹارگٹ کلنگ ، مفتی نظام الدین شامزئی کی ٹارگٹ کلنگ ، شیر شاہ میں سپاپ صحابہ کے مقامی رہنما مفتی محمود کی ٹارگٹ کلنگ ، ناظم آباد میں حرکت المجاہدین کے کیمپ پر فائرنگ کے الزامات بھی کامران حیدر پر عائد کردئے ہیں ۔

شیعیت نیوز: سندھ پولیس کی شیعہ دشمنی کی انتہاء دو ماہ سے کراچی کہ مختلف علاقوں سے لاپتہ دو شیعہ نوجوانوں کامران حیدر عرف کامی اور کرار حسین پرقتل کے15جعلی مقدمات قائم کردیئے۔

کراچی کےعلاقوں سے سادہ لباس اہلکاروں کی جانب سے اغواء کیئے جانیوالے ان دونوں نوجوانوں کی سندھ پولیس کےڈپارٹمنٹ سی ٹی ڈی (CTD) نے دو ماہ بعد8 دسمبر کو گرفتاری دیکھائی ہے اور ان پہ 1996سے لیکر 2018تک کےتمام فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات ڈال دیئے ہیں تاکہ پاکستان میں امریکی و سعودی ایماء پر ملک دشمن و فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا جاسکے ۔

سی ٹی ڈی نے میڈیا کو جاری پریس ریلیزکامران حیدر اور کرار حسین پرجھوٹا الزام کیا ہے کہ ان دونوں نے 2007-08میں شاہ فیصل کالونی میں مدثر نامی شخص کو قتل کیا۔ شمسی اسپتال کے نزدیک ڈاکٹر محبوب کو قتل کیا۔ ڈیفنس میں عیسیٰ نامی بلوچ لڑکے کو قتل کیا۔ 2012-13 میں کالعدم سپاہ کے کارکن کو لسبیلہ کے علاقے میں قتل کیا۔ نیوکراچی تھانے کے قریب برگر فروش جماعت اسلامی اور سپاہ صحابہ کے مشترکہ کارکن کو قتل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی، گلشن اقبال مسکن چورنگی پر میزان بینک دھماکے میں کالعدم جماعت اوربارودی مواد کی موجودگی کا اہم انکشاف

سی ٹی ڈی کی جھوٹی رپورٹ کے مطابق کامران اور کرار نے 2013 میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرشاہد آٹوز کےمالک شاہد کو ناگن چورنگی سے پاور ہاؤس کی طرف جاتے ہوئے قتل کیا۔ کرار نے 2014 میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر تنویر سوئٹس ملیر کھوکراپار میں سگے بھائیوں تنویر اور توصیف کو قتل کیا۔کامران حیدر نے 2001-02 میں چائنہ گراؤنڈ کشمیر روڈ میں سپاہ صحابہ کے جلسے سے واپس آنے والی گاڑی پر فائرنگ کرکے 7سے 8افراد کو قتل کیا۔

کامران نے 2007میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملیر محب نگر پر ایم ایم اے کے جلسے سے واپس آنے والے جماعت اسلامی کے رہنما واصف عزیز کو قتل کیا۔ کامران نے جعفرطیار سوسائٹی میں امن کمیٹی کے ڈکیت کےشبہ میں ایک لڑکےکو قتل کیا۔ 2018 میں اشرف المدارس کے مستونگ سے تعلق رکھنے والے قاری کو رب میڈیکل سینٹر کے پاس قتل کیا۔ کامران نے 2001-02میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ٹیسٹی گولڈ کے مالک کے قتل کیا۔

پولیس کی جانب سے جامعہ بنوریہ کے مولانا یوسف لدھیانوی کی ٹارگٹ کلنگ ، مفتی نظام الدین شامزئی کی ٹارگٹ کلنگ ، شیر شاہ میں سپاپ صحابہ کے مقامی رہنما مفتی محمود کی ٹارگٹ کلنگ ، ناظم آباد میں حرکت المجاہدین کے کیمپ پر فائرنگ کے الزامات بھی کامران حیدر پر عائد کردئے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: شیعہ مسنگ پرسن کامران حیدر اور کرار حسین کو جھوٹے مقدمات میں ملوث قرار دیکر گرفتاریاں ظاہر کردی گئیں

واضح رہے کہ پاکستان جسکے خلاف عالمی سازشیں اپنے عروج پر ہیں ایسے وقت میں سندھ پولیس جو کہ ملک کےحساس ادارے آئی ایس آئی (ISI) کہ خلاف بھی مریم و کیپٹن صفدر گرفتاری کیس میں سازش کرچکی ہے اب اس نے شہر کراچی و پاکستان کہ امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے جعلی مقدمات کا سہارا لیکر دو ماہ سے لاپتہ شیعہ نوجوانوں کامران حیدر اور کرار حسین پر جھوٹے مقدمات و مذہبی شخصیات کے قتل کہ مقدمات درج کردیئے ہیں ۔

ملت جعفریہ آرمی چیف اور وزیراعظم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان جھوٹے مقدمات کی حقیقت سامنے لانے کے لئے ان بے گناہ جوانوں کی جے آئی ٹی (JIT) بنوائی جائے تاکہ امریکہ و اماراتی آلہ کار پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت و سندھ پولیس کی سازشیں بے نقاب ہوسکیں اور ان بے گناہ نوجوانوں کو انصاف فراہم ہوسکے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button