اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان

شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان

شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان صدیوں سے ہے۔ امام حسین ع کی یاد میں ہونے والی عزاداری کے حوالے سے جائزہ لیں تو دنیا کے نقشے پر اس وقت جتنے ممالک وجود رکھتے ہیں، ان میں بر صغیر پاکستان و ہندوستان کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔

وہ اس لیے کہ بنیادی طور پر عزاداری، مجلس و ماتم داری کا تعلق شیعہ اسلام سے ہے اور ایران، عراق یا حجاز مقدس یا شام و لبنان و آذربائیجان اور بحرین جیسے شیعہ اکثریتی ممالک اور علاقوں میں عزاداری کا ہونا ایک فطری بات ہے۔

لیکن حکومتی و ریاستی نظام کے لحاظ سے یا آبادی کے لحاظ سے ہندوستان تو مسلمانوں کے کسی بھی مسلک یا فرقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ اسی طرح پاکستانی ریاست یا یہاں کی آبادی بھی مذکورہ بالا شیعہ اکثریتی ممالک یا علاقوں جیسی ڈیموگرافی بھی نہیں رکھتی۔ اسکے باوجود شہدائے کربلا اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام و خاندان اہل بیت نبوۃ سے عقیدت اور انکی یاد منانا، یہ برصغیر پاکستان و بھارت کا ایک منفرد اعزاز ہے۔ اور اسی وجہ سے برصغیر کا مشترکہ مسلک حسینیت ہی ہے۔

شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان

جی ہاں، یہ حسینیت ہی ہے جس نے مختلف مذاہب و عقائد کے پیروکار انسانوں کو ایک دوسرے سے قربت، رواداری اور محبت پر مجبور کررکھا ہے۔ لیکن ہر سال محر م کے ایام میں برصغیر پاک و ہند میں عزاداری کی تاریخ سے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت آسان ہے۔

عرب سے صدیوں پرانا تعلق

برصغیرکا دنیائے عرب سے صدیوں پرانا تعلق ہے جو اعلان نبوت حضرت محمد ﷺ کے وقت سے بھی پہلے کا ہے۔ ماضی میں یمن عرب ثقافت و تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بحری راستے سے تجارت ہوا کرتی تھی۔ عربوں کی بھی برصغیر کے ان علاقوں میں جسے آج کل پاکستان و بھارت کہا جاتاہے، یہاں آمد و رفت ہوا کرتی تھی۔ حتیٰ کہ ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے کہیں تو رسول اکرم ﷺ کی یثرب (مدینہ منورہ) ہجرت کے ساتویں سال ہی بھارت میں ایک مسجد تعمیر کی جاچکی تھی۔

شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان

خلفاء کے دور حکومت میں بھی برصغیر سے عرب تعلق برقرار رہا۔ بعد ازاں یہاں علاقوں کو فتح کرنے کا سلسلہ بھی رہا۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں فتوحات کا سلسلہ رہا۔

آل رسول ﷺ کی ہجرت

لیکن ان دونوں کے درمیان سانحہ کربلا کے بعد اہل بیت نبوۃ کے خاندان کی عرب سے عجم علاقوں کی طرف ہجرت کا تذکرہ بھی تاریخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح بنوعباس کے دور حکومت میں حضرت عبداللہ شاہ غازی (جائے مدفن کراچی) کی یہاں شہادت اور یہیں انکے جسد خاکی کی تدفین بھی آل رسول ﷺ کی مظلومیت کی ایک مثال کے دور پر تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔

مقامی افراد مکلی کے قبرستان میں بھی اس دور کی شخصیات کی قبور سے متعلق تصدیق کرتے ہیں۔ جبکہ لاہور میں بی بی پاک دامن س کا مزار بھی اسی بکھری ہوئی مکمل حقیقت کا ایک حصہ ہے۔

بعد ازاں بری سرکار شاہ عبداللطیف (اسلام آباد) سے لے کر لعل شہباز قلندر و شاہ شمس تبریز (ملتان)، اور شاہ عبداللطیف بھٹائی تک بزرگان کا ایک سلسلہ ہے۔ یعنی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دور سے برصغیر کا اسلام سے تعلق جڑا اور یہاں آل رسول ﷺ کی ہجرت اور یہیں آباد ہوجانا، یہ سب بھی تاریخی حقیقت ہے۔

خلق خدا نے فیض پایا

ہند کے علاقے گجرات و راجستھان میں اسماعیلی شیعہ مبلغین کی تبلیغ اور بعدازاں اثنا عشری شیعہ مسلمانوں کا ہونا بھی ایک زندہ تاریخی حقیقت ہے۔ سندھ تا موجودہ ملتان تو اسماعیلی حکومت کے زیر اثر بھی رہے۔ پھریہ بھی ہوا کہ سادات آل رسول ﷺ میں ایسے بزرگان یہاں سے گذرے یا یہاں سکونت اختیار کرگئے کہ جن سے خلق خدا نے فیض پایا۔

محرم میں غم منانے کے شروع سے قائل

یہاں مقامی حکمران بھی علم دوست تھے۔ انہوں نے علمی، انتظامی و عدالتی شعبوں میں ایران سے ماہرین بلوائے۔ اور حکمران خود بھی چونکہ یا تو شیعہ مسلمان تھے یا مائل بہ تشیع تھے یا پھر اہل بیت نبوۃ سے محبت رکھنے والے تفضیلی سنی تھے، اس لیے وہ بھی محرم میں غم منانے کے شروع سے قائل رہتے آئے ہیں۔ اسی طرح عرفائے کرام (صوفیاء) کے چشتی، قادری، سہروردی سلسلوں سے منسلک بزرگان نے بھی محبت اہل بیت نبوۃ یا انکی افضل حیثیت کے اعتقاد کی تبلیغ و ترویج کی۔

محبت اہل بیت نبوۃ ﷺ اور عزاداری ڈی این اے میں ہے

خلق خدا دنیا کے رنج و غم سے تنگ آکراولاد رسول ﷺ کے مزارات مقدسہ پر درددل اور توسل کے لیے حاضرہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی محروم طبقات کو فیض پہنچانے کے لیے اپنے نیک بندوں کے مزارات کو وسیلہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ سب مل جل کر برصغیر کے معاشرتی مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

امام حسین ع سے بے مثال عقیدت اور محرم میں سوگ

اس سارے پس منظر کو مد نظر رکھ کر ایک محقق اور منصف مزاج انسان سمجھ سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام سے یہ بے مثال عقیدت اور محرم میں سوگ کی یہ مشترکہ کیفیت صدیوں سے ایک تسلسل کے ساتھ برصغیرپاکستان و بھارت میں آباد انسانوں کے مزاج میں، خون میں، گوشت پوست میں یایوں کہیں کہ ڈی این اے میں آچکی ہے۔

امام حسین علیہ السلام اولاد آدم کوایک دوسرے سے جوڑتے ہیں

یہاں امام حسین علیہ السلام اور انکے جاں نثار اصحاب شہدائے کربلا سے عقیدت رکھنے والے انسانوں میں ہندو اور مسیحی بھی ملیں گے تو سنی بھی۔ یوں سید الشہداء کی یاد میں برپا کی جانے والی عزاداری اولاد آدم کوایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ اور برصغیر میں زیارت وارثہ کا یہ جملہ حقیقت کا روپ دھارلیتا ہے السلام علیک یا وارث آدم صفوۃ اللہ۔

یزید بن معاویہ چھٹا خلیفہ

بنوامیہ کا مطلق العنان ظالم و جابر حاکم یزید بن معاویہ کو اپنا ماننے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ وہ بھی جن کے بزرگان کی کتب میں یزید کو چھٹا خلیفہ قرار دیا گیا ہے، وہ بھی اپنے ہم مسلک عام انسانوں سے یہ باتیں چھپاتے ہیں، کیونکہ سبھی کو معلوم ہے کہ اگر انکے پیروکاروں کو پتہ چل گیا کہ یزید بن معاویہ انکا چھٹا خلیفہ ہے تو وہ اس مسلک پر لعنت بھیج کر حسینیت کے پیروکار بننے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کریں گے۔

برصغیرکا مشترکہ مسلک حسینیت و عزاداری و محبت اہل بیت ؑ نبوۃ ﷺ

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بر صغیر میں اولاد آدم کے مابین بحق شہدائے کربلا اور بحق امام حسین علیہ السلام محبتیں قائم فرمائے۔ اور برصغیر اپنے مشترکہ مسلک حسینیت و عزاداری و محبت اہل بیت ؑ نبوۃ ﷺ کے ساتھ امام زمان عج کے حقیقی پیروکاوں کی فہرست میں رہتے ہوئے تاقیامت خوشحال شاد و آباد رہے۔

محمدابوذرمہدی برائے شیعیت نیوز اسپیشل
شہدائے کربلا کا عزاداربر صغیر پاکستان و ہندستان
اھل بیت نبوۃؑ کی صداقت کبریٰ پر گواہ آیہ مباھلہ
شہدائے کربلا کی یاد منانے والے قبائلی ہندوبھارت میں کے سابق ضلع عدیل آباد میں محرم الحرام یوں مناتے ہیں۔ دیگر ہندو ذات برادری کے افراد بھی امام حسین ع کی یاد مناتے ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button