اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

متحدہ عرب امارات و اسرائیل معاہدے کے بعد کا منظر نامہ

متحدہ عرب امارات و اسرائیل معاہدے کے بعد کا منظر نامہ

متحدہ عرب امارات و اسرائیل معاہدے کے بعد کا منظر نامہ بھی وہی ہے جو اس معاہدے سے پہلے تھا۔ کیونکہ تقریباً پچیس برسوں سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سیکیورٹی اورتجارتی شعبوں میں تعلقات استوار ہیں۔ بس فرق یہ ہوا کہ اب یہ تعلقات خفیہ نہیں رہے بلکہ اب علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر یہ تعلقات قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے۔

امریکی سرپرستی میں فلسطین کاز سے خیانت

حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ اسکا رسمی اعلان یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اپنے صدارتی دفتر سے بیٹھ کرکیا۔ اور بعد ازاں صدارتی پریس سیکریٹری نے اس موضوع کو پریس کانفرنس کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اورابوظھبی کے ولی عہد محمد بن زاید النھیان سے فون پر گفتگو کی۔ اور اسکے بعد ایک مشترکہ بیان جاری ہوا۔ اس بیان کے توسط سے ٹرمپ، نیتیناہو اور اماراتی ولی عہد ایم بی زیڈ کی طرف رسمی طور پر یہ اعلان کردیاگیا۔

خطے میں امن کی طرف پیش قدمی

یعنی یو اے ای (یونائٹڈ عرب ایمریٹس یا متحدہ عرب امارات) اور اسرائیل نے دوطرفہ تعلقات کو مکمل طور پر معمول لانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ مطلب یہ کہ مختلف شعبوں میں اب دوطرفہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں دوطرفہ معاہدوں پر دستخظ ہوں گے۔ سفارتخانے کھلیں گے اور مواصلاتی رابطہ بھی رسمی طور پر قائم ہوجائے گا۔ یونائٹڈ عرب ایمریٹس یعنی متحدہ عرب امارات اس ایگریمنٹ کے بعد تیسرا عرب مسلمان ملک ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ اور مکمل تعلقات قائم کرلے گا۔
ساتھ ہی ساتھ اس اس سہ طرفہ مشترکہ بیان میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ انکایہ عمل خطے میں امن کی طرف پیش قدمی ہے۔

زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی

مشرق وسطیٰ اور فلسطین ایشو سے متعلق معلومات رکھنے والے ہر فرد کو معلوم ہے کہ جس طرح بڑھاچڑھاکر اس مشترکہ بیان اور امارات و اسرائیل تعلقات کو پیش کیا گیا ہے، اس سے زمینی حقائق میں کوئی قابل توجہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ برطانوی ادارے بی بی سی نے اسے تاریخی معاہدہ قرار دے کر اس کی اہمیت جتانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن آگاہ افراد جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے سفیر جنوری 2020ع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیل آف دی سینچری کے رسمی اعلان کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ انکے ساتھ تقریب میں بحرین اور عمان کے سفیرو ں نے شرکت کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اب تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جلد ہی بحرین و عمان اور ساتھ ہی مراکش بھی اسرائیل کو ایک ملک تسلیم کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں ممالک نے بھی یو اے ای کی مانند اسرائیل کے ساتھ غیر اعلانیہ اور غیر رسمی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔

متحدہ عرب امارات و اسرائیل معاہدے کے بعد کا منظر نامہ

لیکن ان سب کی جانب سے ایسا کرلینے کے باوجود مشرق وسطیٰ اور فلسطین ایشو کے حوالے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطینی عرب سمیت عرب و مسلما ن رائے عامہ ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں اسرائیل کو ایک جعلی مملکت قرار دے کر اسکو مسترد کرتے آہے ہیں۔ غیر ملکی یہودی اقلیت نے عرب اکثریتی فلسطین پر قبضہ کرکے اس مقبوضہ فلسطین کے ایک بڑے حصے کا نام اسرائیل رکھ دیا ہے۔

 اسرائیل کا وجود جمہوریت کی کھلی نفی

ٍ یعنی جمہوری اصولوں کی روشنی میں بات کی جائے تو اسرائیل کا وجود جمہوریت کی کھلی نفی ہے۔ اقوام متحدہ کے قوا نین کی روشنی میں بھی بات کی جائے تو آزادی یا علیحدہ مملکت کا قیام کسی سرزمین کی مقا می آبادی کرتی ہے نہ کہ غیر قانونی قابضین۔ اور عام فہم بول چال کی روشنی میں بات کریں تو اسرائیل نسل پرست یہودی لینڈ مافیا ہے، قبضہ گروپ، مافیا کا نام ہے۔ انہوں نے لاکھوں فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے انہوں نے پہلے خفیہ گروہ بنائے اور سازشیں کیں۔ فلسطینی عربوں کو انکی آبائی سرزمین سے زبردستی نکال باہر کیا۔ اور آج بھی لاکھوں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں غریب الوطن حیثیت سے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل کا غیر قانونی ناجائز قبضہ

نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان کے بعض علاقوں بشمول شبعا فارمز اور لبنان کے زیرسمندر گیس ذخائر اور شام کے جولان پہاڑی علاقے پر اسرائیل کا غیر قانونی ناجائز قبضہ آج بھی برقرار ہے۔ اس لیے اس تنازعہ کے اس وقت بنیادی طور پر جو عرب فریق ہیں وہ تین ہیں، ایک فلسطینی خود، دوسرے لبنانی اور تیسرے شامی۔ تو یہ تینوں فریق تو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ تینوں اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کا جائز مطالبہ رکھتے ہیں۔ اور تینوں کے ساتھ اسرائیل کی چھوٹی بڑی جنگیں تاحال جاری ہیں۔

مسئلے کے اصل عرب فریق کون ہیں

دوسری طرف فلسطین، لبنان و شام بھی مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی اس دفاعی جنگ پر نازاں ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ کم سے کم لبنان کی حزب اللہ نے جنوبی لبنان کا ایک بڑا علاقہ اسرائیل کے ناجائز قبضے سے آزاد کروالیا۔ اور حماس، حزب جہاد اسلامی و دیگر فلسطینی مقاومتی تحریکوں نے غزہ سے اسرائیل کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اور انکے ساتھ شام کی مدد و حمایت بھی شامل حال رہتی آئی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امن کی طرف پیش قدمی کیسے ممکن ہے

تو مشرق وسطیٰ میں امن کی طرف پیش قدمی کیسے ممکن ہے جبکہ عرب اسرائیلی تنازعہ میں جو اصل عرب فریق ہیں، انہوں نے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حتیٰ کہ یاسر عرفات اور ابومازن محمود عباس کی تنظیم آزادی فلسطین و الفتح نے بھی ٹرمپ کی ڈیل آف دی سینچری مسترد کردی۔ اور امریکا کو غیر جانبدار ثالث ماننے سے انکار کردیا ہے۔

فلسطین کی قیادت

سال 2006ع اور 2007ع میں کے ععلی الترتیب بلدیاتی و پارلیما نی الیکشن میں حماس کو فلسطینیوں نے بھاری اکثریت سے منتخب کرکے فلسطین کا حکمران بنایا تھا۔ لیکن امریکا اور اسکے اتحادیوں نے حماس حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ غزہ میں اب بھی حماس و حزب جہا داسلامی سمیت متعدد فلسطینی مسلح مزاحمتی تحریکیں موجود ہیں۔ اور اس وقت سارے فلسطینی قائدین مشترکہ و متفقہ موقف رکھتے ہیں۔ چونکہ امارات نے ایک فلسطینی محمد دھلان کو طویل عرصے سے اپنے پاس رکھا ہوا ہے، اس لیے اسکے بل بوتے پر امارات نے یہ ناکام سفارتی خود کش حملہ کرنے میں جلدبازی سے کام لیا ہے۔

عرب موقف اور انٹرنیشنل لاء

انٹرنیشنل لاء مقبوضہ یروشلم (بیت المقدس سمیت) پر اسرائیلی دعوے کومسترد کرکے اسے مقبوضہ علاقہ قرار دیتا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انٹرنیشنل لاء سے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔ انٹرنیشنل لاء کے مطابق جولان شام کا علاقہ ہے اور اس پر اسرائیل کاقبضہ غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ مقبوضہ جولان کو اسرائیل کا علاقہ مان کر بھی امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت نے انٹرنیشنل لاء کو جوتے کی نوک پر رکھ کر مسترد کردیا ہے۔

چونکہ ایران بھی شام، لبنان اور فلسطین کے جائز اور قانونی حق کی حمایت کرتا ہے تو ایران کے موقفکی تائید تو خود انٹرنیشنل لاء بھی کرتا ہے۔ تو امریکا اور اسرائیل اور انکے اتحادی جی سی سی ممالک کے ایران پرالزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ شام کی حکومت کی درخواست پر ہی ایران شام کی مدد کررہا ہے جوکہ انٹرنیشنل لاء کے عین مطابق ہے۔

غلام حسین برائے شیعیت نیوز اسپیشل
متحدہ عرب امارات و اسرائیل معاہدے کے بعد کا منظر نامہ
سعودی عرب کی خدمات برائے پاکستان و عالم اسلام
اماراتی ولی عہد محمد بن زاید، ٹرمپ اور نیتن یاہو کے مشترکہ بیان برائے قیام تعلقات بین یو اے ای اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی عربوں رد عمل

متعلقہ مضامین

Back to top button