اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ

لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ

لبنان سے متعلق بیوروکریٹ اوریا مقبول جان کے جھوٹ اتنے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ انکا پیڈ کانٹینٹ پڑھیں اور اس میں فیکٹ چیک کریں تو انکی تحریروں کی بنیاد جہالت، کذب و افتراء پر کھڑی نظر آتی ہے۔ روزنامہ 92نیوزمیں بلاد شام کا بیروت میدان جنگ کیوں کے عنوان سے سات اور آٹھ اگست 2020ع کو دو قسطوں میں انہوں نے جو کچھ لکھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ، بلاد شام اور لبنان سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے۔

یا دیدہ و دانستہ انہوں نے کئی جھوٹ اس میں شامل کئے ہیں۔ ان جھوٹ اور غلط بیانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب اور دیگر لبنان دشمن اور عرب دشمن غیر لبنانی کرداروں اور انکے آلہ کاروں سے اردو بلد قارئین کی توجہ ہٹانا، انکی اس تحریر کا مقصد ہے۔

اوریا مقبول جان کے جھوٹ اور زمینی حقائق

دنیا بھر میں جتنے بھی افراد نے جھوٹ اور جھوٹے الزامات پر مبنی مذکورہ تحریر پڑھی ہے، ہماری یہ تحریر ان افراد کے لیے ہے۔ یادرہے کہ اس جوا بی تحریر میں عالمی سطح پر قابل قبول ذرایع سے تاریخی معلومات نقل کی جارہیں ہیں۔

لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ

سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رہے کہ بیروت دھماکے نے دنیا کے سامنے جو لاتعداد سوالات کھڑے کردیے ہیں، ان سب کا آغاز تب سے ہوتا ہے جب سے لبنان ایک ملک کی شکل میں قائم ہوا۔ ویسے تو 1861ہی میں گرینڈ لبن یا گریٹر لبنان کا شوشہ چھوڑا جاچکا تھا اور 1920ع میں بیروت، بقاع اور دیگر علاقے آٹونومس ماؤنٹ لبنان میں شامل کیے جاچکے تھے۔ اور ایسا بھی رتھا کہ1920ع ہی میں لیگ آف نیشنز (یعنی اس وقت کی اقوام متحدہ) نے کوونینٹ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی سطح کا قانون منظور کرلیا تھا۔ بعد ازاں اس کوونینٹ میں دسمبر 1924ع تک ترامیم بھی ہوئیں۔ یاد رہے کہ 26شقوں پر مشتمل اس دستاویز کی شق (آرٹیکل) 22کے تحت شام اور لبنان کو 1923 ع میں مینڈیٹ کے نام پرباضابطہ طور پر فرانس کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔

اوریا مقبول جان کے جھوٹ اورسوالات

اس پیراگراف کے بعد جو سوالات بنتے ہیں وہ یہ کہ سنیوں کی سلطنت عثمانیہ کا سقوط کس نے کیا؟ ان بڑی طاقتوں کے آلہ کار سنی کون تھے؟ اور کتنے سنی سقوط عثمانیہ کے فوری بعد بینیفشری بنے یعنی سنی حکمران خاندان، انکی تعداد۔ اور سنی سلطنت عثمانیہ کے بعد سے جو سنی حکمران خاندان بنے، کیا وہ انہی بڑی طاقتوں کے آج تک دوست، اتحادی اور منظور نظر نہیں!؟۔ جواب یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں سنی (اہل سنت) خاندان خود ہی امت اسلامی کے سب سے بڑے خائن (خیانت کار) اور اسلام کے سب سے بڑے غدار ہیں۔ اور دور دور تک اس میں کوئی سنی شیعہ تنازعہ نہیں ہے، بلکہ سنی بمقابلہ سنی تنازعہ ہے اس لیے عالمی سامراج، زایونسٹ اور سعودی ناصبیت کے آلہ کاریہ حقائق ”اہل سنت“ (سنیوں) عوام سے آج تک چھپاتے آرہے ہیں۔

لبنان سے متعلق تاریخی حقائق

بیروت سمیت پورے لبنان سے متعلق دوسرا نکتہ یہ یاد رہے کہ مینڈیٹ پاور (انتدابی طاقت) فرانس نے مئی 1926 ع میں ایک آئین کے تحت لبنان کو ایک ری پبلک کی حیثیت دی، بعد ازاں اس آئین میں 1927ع، 1929عاور1943ع تک فرانس نے ترامیم کیں۔ اور بالآخر 1943ع میں لبنان کے مسلمان اور کرسچن کے مابین ایک نیشنل پیکٹ یا قومی معاہدہ کے عنوان سے شراکت اقتدار کا فارمولا طے پاگیا۔ لبنان پر سے فرانس کا انتدابی اختیار کے خاتمے یعنی لبنان کی آزادی کا رسمی اعلان ہوا۔

لبنان نیشنل پیکٹ تا خانہ جنگی

بنیادی طور پر یہ 1943ع سے طے ہوگیا کہ لبنان کاصدر مارونی مسیحی (یعنی میرونائٹ کرسچن)، وزیراعظم سنی (اہل سنت) اور اسپیکر پارلیمنٹ شیعہ مسلمان ہوگا۔ گوکہ1989ع میں سعودی عرب کی سرپرستی میں طائف شہر میں لبنان کے حوالے سے تاریخی معاہدہ طائف بھی ہوا، لیکن 1943ع کے مذکورہ بالا شراکت اقتدار فارمولا کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

لبنان میں مسلمان مسالک

آگے بڑھیے اور سوال کیجیے کہ سعودی عرب کی سرپرستی میں معاہدہ طائف بھی ہوگیا، تو لبنان میں کس کس کو مسلمان مسالک قرار دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی ناصبی وہابیت بھی لبنان میں ان پانچ مسالک کو مسلمان تسلیم کرتی ہے۔ ریاست لبنان کے مطابق سنی، علوی، دروز، اسماعیلی اور شیعہ (اثناعشری) مسلمان مسالک ہیں۔ لبنان ریاست کے مطابق مارونی (میرونائٹ) سمیت کرسچن کے کل بارہ فرقے ہیں جبکہ یہودی کمیونٹی بھی وہاں آباد ہے۔

عالم اسلام کے سب سے بڑے خیانت کار اور منافق

اب سوال یہ پوچھیں کہ پاکستان میں علوی، اسماعیلی اور اثناعشری شیعہ مسلمانوں کے لیے کوئی اور معیار ہے مسلمان ہونے کا!؟۔ مسئلہ عالم اسلام کے سب سے بڑے خیانت کار اور منافق سعودی ناصبیت اور اسکے زرخرید مولوی جانشینان حق نواز جھنگوی کالعدم دہشت گرد ٹولے کے مولوی لدھیانوی، معاویہ اعظم کے ساتھ بھی ہے تواشرف جلالی ناصبی اورقاری زوا بہادر ناصبی کے ساتھ بھی ہے۔

اور یہی مرض نفسیاتی مریض اوریا مقبول جان کو بھی لاحق ہے۔ تاریخ کھلی کتاب کی مانند ہے۔ لبنان کی تاریخ بھی کھلی کتاب کی طرح سب کی دسترس میں ہے۔

سنی خلافت عثمانیہ کی ایسی کی تیسی کس نے کی

سنی خلافت عثمانیہ کی ایسی کی تیسی کرنے والوں کا سب سے بڑا سہولت کار سعودی بادشاہ ابن سعود تھا۔ اہل سنت جاکر مکہ و مدینہ پر جنگیں مسلط کرنے والے آل سعود شاہی خاندان اور اس کے درباری آل شیخ ملاؤں سے پوچھیں کہ سنی ترک خلیفہ کی جگہ خادم حرمین شریفین کے منصب پر سعودی بادشاہ کیسے بیٹھا۔

لبنان بلاد شام  نجد و حجاز کی تاریخ

لبنان کے سارے مسائل کا جواب لبنان کی اور بلاد شام کی ہی نہیں بلکہ نجد و حجاز کی تاریخ میں تحریر ہے۔ اس میں نہ تو کوئی ایران ملوث تھا، نہ تو کوئی امام خمینی ملوث تھا، نہ ہی کوئی حزب اللہ تھی اور نہ ہی کوئی حسن نصراللہ تھا۔ سال 1975ع کی خانہ جنگی اس لیے شروع ہوئی کہ اسرائیل کی آلہ کار فلانجسٹ پارٹی نے سنی اور کرسچن فلسطینیوں پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ فلانجسٹ خود بھی کرسچن فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

سال 1978ع میں اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیا

سال 1978ع میں اسی خانہ جنگی کی آڑ میں اسرائیل نے لبنان کے اندر گھس کر لبنان پر قبضہ کیا، لبنانیوں کی نسل کشی کی۔ اور 1990ع میں یہ خانہ جنگی ختم ہوئی۔ اور اس طویل خانہ جنگی نے لبنان کو بدترین اقتصادی مشکلات میں مبتلا کیا۔

اوریا مقبول جان کو لبنان کی آبادی کا ہی نہیں پتہ

تاریخ تو بہت دور اوریا مقبول جان کو لبنان کی آبادی کا ہی نہیں پتہ، اور وہ لبنان سے متعلق پاکستانیوں اور دنیا کے اردو بلد انسانوں کوگمراہ کررہے ہیں۔ سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق جولائی تک اندازاً لبنان کی کل آبادی 54لاکھ 69ہزار612نفوس پر مشتمل تھی۔ ورلڈ بینک نے اقوام متحدہ(یونائٹڈ نیشنز) پاپولیشن ڈویژن اور دیگر اداروں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر 2019ع میں لبنان آبادی 68لاکھ 55ہزار713بیا ن کی۔ ورلڈ میٹرز نے 11اگست 2020ع کو اقوام متحدہ کے تازہ ترین ڈیٹا کی روشنی میں لبنان کی آبادی 68لاکھ 21ہزار888بیان کی جولائیو اعداد و شمار ہیں جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہیں۔

مہاجرین کا ایشو امریکا، اسرائیل، سعودی عرب کا پیدا کردہ

جہاں تک بات ہے پناہ گزین یا مہاجرین کے اضافی بوجھ کی تو لبنان کی تاریخ گواہ ہے کہ کرسچن اور مسلمانوں نے مختلف ادوارمیں نقل مکانی کرکے یہاں پناہ لی۔ اور مہاجرین کا ایشو امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور اسکے دیگر اتحادیوں کا پیدا کردہ ہے۔ نہ وہ شام کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف دہشت گرد اور باغی تیار کرکے خانہ جنگی کرواتے، نہ یہ ہجرت ہوتی۔ اور امریکی سعودی زایونسٹ اتحادنے تو افغانستان کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا تھا۔ اور آج بھی افغانی مہاجرین پاکستان اور ایران میں رہتے ہیں۔

لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ

لبنان سے متعلق ریٹائرڈ پاکستانی بیوروکریٹ اوریا مقبول جان کے جھوٹ

اوریا مقبول جان ایک غیر معتبر اور غیر مستند ریٹائرڈ پاکستانی بیوروکریٹ ہیں۔ سعودی عرب، امریکا اور سرائیل کے لاڈلے ہیں، تبھی مزے میں ہیں۔ سرکاری ملازمت کے وقت بھی سیاسی تجزیہ نگار بن کر ٹی وی چینل پر نازل ہوا کرتے تھے۔ یعنی شروع سے قانون اور اخلاقیات کو جوتے کی نوک پرر کھتے آئے ہیں۔

حزب اللہ، لبنان کی قانونی سیاسی عوامی نمائندہ جماعت ہے

انہیں کیا معلوم کہ ملک آئین و قانون کے تحت چلتے ہیں اور انہی قوانین کے تحت منتخب عوامی نمائندگان اقتدار میں شراکت کرتے ہیں۔ لبنان کی پارٹی حزب اللہ، لبنان کی قانونی سیاسی جماعت ہے، عوامی نمائندہ ہے، شراکت اقتدار میں اسکا بھی جائز قانونی جمہوری حصہ بنتا ہے۔ مگر یزیدی ناصبی طاقت اور درباری مروانی مولویوں کی مدد سے آل سعود کی غیر جمہوری مطلق العنان بادشاہت کو چونکہ منافقت کی پرانی بیماری ہے اس لیے وہ پاکستان کو ان فتنوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

لبنان کے غیرت مند بیٹوں کی قانونی و جائز تحریک آزادی

اسی طرح سنی فلسطینی و شامی عرب مسلمان و کرسچن سرزمین پر غیرقانونی قبضہ کرنے والے اسرائیل کو بھی لبنان کے غیرت مند بیٹوں کی قانونی و جائز تحریک آزادی و مسلح مقاومت سے خطرات ہیں، تو اسکا نیریٹیو (بیانیہ) بیچنا بھی اوریا مقبول جان کے ذمے ہے۔

البتہ اہل سنت یا سنی و کرسچن بھائیوں کی خدمت میں مودبانہ عرض کہ پاکستان کو لبنان نہ بننے دیں کیونکہ زایونسٹ اسرائیل، سعودی عرب، اور انکے سرپرست امریکا اور دوست فرانس سمیت یہ پورا اتحاد انسانیت دشمن ایجنڈا پر عمل کررہا ہے۔ یہ اولاد آدم کی مختلف بہانوں سے نسل کشی کرتا ہے، ان کا مال اسباب سب کچھ تباہ کردیتا ہے۔

ہر منصف مزاج انسان پر فرض

پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، برصغیر کی تاریخ، مسلمان و عرب تاریخ، افغانستان کی تاریخ اور خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اوریا مقبول جان، لدھیانوی، قاری زوار بہادر، اشرف جلالی جیسے نفرت پھیلانے والوں کی اسی بدکرداری کی وجہ سے فتنہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور عوام کی جہالت و لاعلمی سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے مذہبی عقیدے و سیاسی نظریے کو خود پر لاگو کرنے میں آزاد ہے لیکن جب دوسروں پر بذریعہ طاقت، دھونس و دھاندلی مسلط کرنے کی سازش کرے تو اس کی مخالفت اور مذمت کرنا ہر منصف مزاج انسان پر فرض ہے۔

مولویوں کی دھمکیاں

برصغیر کی منفرد پاکستانی قوم ہی ہے جس نے ان سب فتنوں کو کچل کر ایک مثال قائم کی۔ مظلوموں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بابائے قوم کا درجہ دے کر متفقہ قائد مان کر اوریا مقبول جان اور حق نواز جھنگوی کے نظریے کو اسکی پیدائش سے کئی عشرے پہلے دفن کردیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے بہانوں سے فتنے ایجاد کرنے والوں سے ہشیار۔ اولاد آدم کو تقسیم کرنے کی سازش کچل کر رکھ دیں۔

لدھیانوی دہشت گرد گروپ اور اسکے آلہ کار قاری زوار بہادر اور اوریا مقبول جان کے فرقہ پرستانہ متشدد نظریات کے خلاف عدم کارروائی ریاست پاکستان پر سوالیہ نشان ہے۔ کیا پاکستان کے 73ویں یوم آزادی پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز یا اسکے ولی عہد بیٹے ایم بی ایس کو پاکستانی قوم کا بابائے قوم بنانے کی تیاری ہے!؟۔۔ اہل سنت کا نام استعمال کرنے والے مولویوں کی دھمکیاں تو یہی اشارہ دیتیں ہیں!۔

اوروہ پاکستان کو بھی لبنان کی طرح خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ یعنی پاکستان کا قومی تہوا سالانہ جشن یوم آزادی بھی سبوتاژ۔ ویل ڈن سعودی مودی نیتن یاہو میکرون ٹرمپ اتحاد۔۔۔ یعنی یہ سب اب سگے بھائی بن گئے اور مسئلہ صرف سوتیلے بھائی شیعہ مسلمانوں سے ہے، کیا ناصبی تکفیری مائنڈ سیٹ اسکے علاوہ بھی اور کچھ ہے!؟ ۔

محمد عمار برائے شیعیت نیوز اسپیشل
لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ
سعودی عرب کی خدمات برائے پاکستان و عالم اسلام
نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت
لبنان سے متعلق اوریا مقبول جان کے جھوٹ
US First Lady Melania Trump (L) shakes hands with Saudi King Salman bin Abdulaziz al-Saud (R) upon arrival at King Khalid International Airport in Riyadh on May 20, 2017. / AFP PHOTO / Saudi Royal Palace / BANDAR AL-JALOUD / RESTRICTED TO EDITORIAL USE – MANDATORY CREDIT "AFP PHOTO / SAUDI ROYAL PALACE / BANDAR AL-JALOUD” –

 

 

متعلقہ مضامین

Back to top button