اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

پاکستان میں فرقہ پرستانہ سیاست سے متعلق حقائق

پاکستان میں فرقہ پرستانہ سیاست سے متعلق حقائق

پاکستان میں فرقہ پرستانہ سیاست سے متعلق حقائق کے عنوان سے یہ تحریر دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت کے عنوان سے پیش کیاگیا تھا۔

امریکی سعودی زایونسٹ ضرورت ہو توسب ایک حکومت کا حصہ

عالمی سامراج کے گماشتوں نے یہ جھوٹ پھیلایا کہ ضلع جھنگ کے شیعہ زمینداروں کے ظلم و ستم کے ردعمل میں سپاہ صحابہ بنی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو ضلع جھنگ میں تکفیری معاویہ اعظم کے باپ کا قائد حق نواز جھنگوی عابدہ حسین سے الیکشن نہیں ہارتا۔ اگر یہ بات درست ہوتی معاویہ اعظم کا باپ پرویز مشرف کی جرنیلی سرپرستی میں جمالی حکومت بنانے کے لئے ووٹ نہ دیتا کہ جس میں ضلع جھنگ کا شیعہ زمیندار فیصل صالح حیات وزیر تھا۔

سعودی امریکی مفاد میں ریاست بھی شامل

اگر اعظم طارق طالبان کا حامی تھا تو نائن الیون کے بعدامریکا کے سب سے بڑے اتحادی پرویز مشرف کی جرنیلی حکومت کی سرپرستی سے فیضیاب کیوں ہوا۔ ریاست نے جب اسکے گروہ کو کالعدم دہشت گرد قرار دے دیا تھا تو اعظم طارق نے جیل سے بیٹھ کر الیکشن کیسے لڑا۔ اور الیکشن لڑ کرپرویز مشرف کے حکم پر لبیک کہہ کر میر ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم بنانے کا ایک ووٹ کیوں دیا۔ اگر اسے دیوبندی مسلک عزیز تھاتواس وقت مفتی محمود کے بیٹے فضل الرحمان کو ووٹ کیوں نہیں دیا۔ اس میں عقلمندوں کے کئے واضح نشانیاں موجود ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی اور لال مسجد آپریشن

اور معاویہ اعظم بھی اپنے ناصبی تکفیری باپ اور اسکے ناصبی تکفیری قائد کی طرح بدترین منافق بھی ہے۔ یہی چوہدری پرویز الٰہی جنرل پرویز کی سربراہی والے ریاستی حکومتی سیٹ اپ میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ تھا اور اسی کی ماتحت پنجاب پولیس نے لال مسجدمیں آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ اور اسی ق لیگ کی ہی ملک پر حکومت تھی جس ق لیگ کا سربراہ چوہدری شجاعت تھا۔

ق لیگ کی حکومت تبلیغی جماعت کے حمایت یافتہ وزیر اعظم

اور اسی ق لیگ کی مخلوط اتحادی حکومت کا وزیر اعظم شوکت عزیز تھا جسے دیوبندی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے اپنے آبائی ضلع تھرپارکر سے بھی جتوایا تھا تو چوہدری پرویز الٰہی نے ضلع اٹک صوبہ پنجاب سے جتوایا تھا۔ اپوزیشن اے آر ڈی نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔

دیوبندی یا بریلوی تشریحات مان لینے سے مسائل حل نہیں ہوجانے

اگر خلافت راشدہ اور امہات المومنین کو دیوبندی یا بریلوی تشریحات کے مطابق مان لینے سے ریاست پاکستان اور اسکے شہریوں کے مسائل حل ہوسکتے ہوتے تو سال 2007ع میں لال مسجد کا خونیں آپریشن نہ ہوتا۔

خود پرویز مشرف سعودی بادشاہ کا خاص دوست بھی تھا اور اتنا خاص کہ خانہ کعبہ کی چھت پراسے لے جایا گیا اور اتنا قریبی دوست تھا کہ سعودی بادشاہ نے اسے تحفے میں بیرون ملک گھر لے کر دیا تھا۔ لال مسجد والے غازی عبدالرشید، برقعاں والی سرکار عبدالعزیز، چوہدری پرویز الٰہی، مولوی لدھیانوی اور پرویز مشرف میں کونسا عقیدے کا اختلاف تھا!؟

لال مسجد، امام کعبہ، سعودی حکومت

اختلاف اس بات کا ہے کہ جو بھی عالمی سامراج کے سوئچ آن پر آن نہیں ہوتا اور سوئچ آف پر آف نہیں ہوتا، اس کی شامت آجاتی ہے۔ اس وقت عالمی سامراج اور اسکے آلہ کار سعودی بادشاہ کے لئے پرویز مشرف کی اہمیت تھی اس لیے لال مسجد کے مولویوں سے امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس نے لال مسجد کے مولویوں کو تاکید کی کہ محاذ آرائی ختم کریں (تفصیل کے لئے دی نیوز3 جون 2007)۔

ٰٓیاد رہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکا کی اتحادی سعودی حکومت کی طرف سے خانہ کعبہ میں نماز کی امامت کے لئے سعودی بادشاہت اور اسکے سرکاری مسلک وہابیت کے پیروکار عالم کو امام کعبہ کے عہدے پر مقرر کیا جاتا ہے۔ اور یہ شیخ عبدالرحمان السدیس خود اس وقت پاکستان میں تھے اور انکی لال مسجد کے 12رکنی وفد سے پنجاب ہاؤس مری میں ملاقات ہوئی تھی۔ لال مسجد کے وفد کا دعویٰ تھا کہ امام کعبہ نے انکی حمایت کی۔

چوہدری پرویز الٰہی نے لال مسجد آپریشن کی اجازت دی

لال مسجد میں فوجی پولیس مشترکہ آپریشن کے لئے اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب پولیس کو حصہ لینے کی اجازت دی تھی.. مخالف تھے تو احتجاجاً استعفیٰ دے دیتے؟ استعفیٰ بھی نہیں دیا۔ اور آج تک اس سرکاری لال مسجد اسلام آباد کا مسئلہ حل ہوکر نہیں دے رہا۔

چوردروازوں سے اقتدار میں حصہ

اسکی وجہ یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کو چوردروازوں سے اقتدار میں حصہ درکار ہے اور عالمی سامراج کو تقسیم کرو حکومت کرو کی پالیسی کے لئے سہولت کار آلہ کار درکار ہیں۔ اس لئے جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک مولویوں کا اور سیاسی یتیموں کا ایک طبقہ ہر دور میں نان ایشوز کو لاکر اصل ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹادیتا ہے۔ اور بسا اوقات اس کے لئے خونیں تصادم یا دہشت گردحملوں تک بھی بات جاسکتی ہے۔

لال مسجد کے آپریشن کے وقت پاکستان کے وزیر داخلہ آفتاب خان شیرپاؤ تھے۔ نواز شریف کی دوسری مرکزی حکومت 1997ع تا 1999ع میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت تھے۔ دونوں ہی سنی تھے۔ تو ہم مسلک ہم عقیدہ ہوجانے کے بعد بھی شدید اختلافات جو خونیں تصادم تک جاپہنچے وہ ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود رہتے ہیں۔

سنی دیوبندی بریلوی اختلافات اور دہشت گردی

کیا سنی تحریک کے قائد سلیم قادری خلفائے راشدین اورامہات المومنین بی بی عائشہ یا بی بی حفصہ کو نہیں مانتے تھے یا سنی حنفی بریلوی مساجد میں کوئی مختلف طریقہ نماز تھا۔ تومعاویہ اعظم اور لدھیانوی اور اورنگزیب فاروقی کے ٹولے نے انہیں کیوں شہید کردیا اور انکی مساجد پر کیوں قبضے کرلئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی ماں انجمن سپاہ صحابہ

معاویہ اعظم اور لدھیانوی و اورنگزیب فاروقی کا مسلک دہشت گردی اور مسلمانوں کی تکفیر ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ماں انجمن سپاہ صحابہ پاکستان اور اسکے آقا ہیں۔ انہوں نے نشتر پارک میں سنی تحریک کے قائد عباس قادری سمیت پوری قیادت کو مارڈالا۔ انہوں نے داتا دربار لاہور کے مزار پر خود کش بمبار حملے لئے۔

سعودی زایونسٹ صلیبی اتحاد کا ایجنڈا

یہ سب کچھ اس لیے کہ یہ سعودی زایونسٹ صلیبی اتحاد کا ایجنڈا تھا۔ اور یہ سب سنی خلافت عثمانیہ کو ختم کرواکر آل سعود کو اسکا جانشین بنانے والے عالمی سامراج نے اپنے ایجنٹ سعودی حکمرانوں اور مولویوں سے کروایا۔ اور اسکا آغاز عصر حاضر میں سرزمین حجاز مقدس یعنی مکہ ومدینہ میں مسلمانوں کے قتل عام سے سعودی بادشاہ ابن سعوداور اسکے وہابی مولویوں نے کیا ہے۔ تفصیلات کے لئے سنی مولوی عبدالقیوم کی کتاب تاریخ نجد و حجاز کا مطالعہ فرمائیں جو 1978ع میں لکھی گئی۔

فسادی تنگ نظر ملاؤں کے کاندھے ہمیشہ استعمال کے لئے دستیاب

پاکستان میں بین المسالک رواداری، امن و سکون تباہ کرنے کے لئے فسادی تنگ نظر ملاؤں کے کاندھے ہمیشہ استعمال کے لئے دستیاب رہے ہیں۔ معاویہ اعظم ہی کے ہم مسلک ہم جماعت دہشت گردوں نے جی ایچ کیو، ایس ایس جی کمانڈوز، آئی ایس آئی سمیت فوجی اہداف پر دہشت گردانہ حملے بھی کئے۔ حتیٰ کہ انہی کے ہم مسلک اور ہم فکر تحریک طالبان پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام کیا۔ لیکن اس دہشت گرد ٹولے کا ترجمان احسان اللہ احسان بھی اسی طرح آزاد ہے جیسے معاویہ اعظم اور لدھیانوی اور فاروقی اورنگزیب آزاد ہے۔

یہی اصل المیہ ہے کہ

یہی اصل المیہ ہے کہ دشمن ریاستی اداروں کے اندر موجود خائنوں کی مدد سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو نقصان پہنچاتا آرہا ہے۔ لیکن ریاستی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا مکمل صفایا نہیں کیا جاسکا۔

سعودی بادشاہ کسی پرویز مشرف کو پردیس میں گھر تحفے میں دیتا ہے تو کسی راحیل شریف کو بھاری تنخواہ پر ملازمت۔ اوراسکا خمیازہ بھگتتی ہے پوری قوم۔

نتیجہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہ، اماراتی اور بحرینی شیوخ و شاہ نے بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات دیے۔ وزیر اعظم عمران خان کو سعودیہ اور امارات نے ڈکٹیشن دی کہ کوالالمپور اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کریں تو پاکستان کے وزیر اعظم نے شرکت نہیں کی۔ کیا مہاتیر محمد اوررجب طیب اردگان بھی خلافت راشدہ کو نہیں مانتے تھے، کیاوہ بھی”رافضی“تھے ۔

راحیل شریف نے احتجاجاً سعودی فوجی اتحاد کی ملازمت نہیں چھوڑی

مودی کو اعلیٰ ترین قومی اعزاز دینے پر نہ تو راحیل شریف نے احتجاجاً سعودی فوجی اتحاد کی ملازمت چھوڑی اور نہ ہی پرویز مشرف نے گھر سعودی حکومت کو واپس کیا۔ اس میں عقلمندوں کے کئے واضح نشانیاں موجود ہیں۔

جب جغرافیائی سرحدوں کے محافظین ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سعودی بادشاہت کے ملازم ہوں یا ان سے بہرہ مند ہورہے ہوں تو جناح اور اقبال کا پاکستان اپنی آزادی اور خود مختاری اور قومی غیرت و حمیت کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے۔ اصل ایشو یہی ہے۔ فرقہ پرستانہ سیاست کا سوئچ آن آف کا تعلق وہاں سے ہے۔ یہ قوم کس سے اپنا دکھڑا روئے۔

محمد عمار برائے شیعیت نیوز اسپیشل
پاکستان میں فرقہ پرستانہ سیاست سے متعلق حقائق

 

متعلقہ مضامین

Back to top button