کیا سیدہ کونین ایک باغ کی خاطر دربار میں گئیں تھیں ؟

میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اسلام محمدی ص وہ ہے جس نے انسانوں کے قلوب کو فتح کیا اور اب تک کرتا ہے۔ اور ایک اسلام وہ ملوکیت زدہ حکومتی اسلام ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ اس نے کتنے رقبے فتح کیے۔ اسی ملوکیت کی متاثرہ "امت” معاملہ فدک کو بھی "فقط ایک باغ” کہہ کر یہ سوال اٹھاتی نظر آتی ہے کہ کیا دختر رسول ص معاذ اللہ ایک زمین کے ٹکڑے کی خاطر دربار میں چلی گئیں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تو سخیوں کا گھرانہ ہے بھلا ان کے نزدیک "ایک باغ” کی کیا حیثیت؟
اس طبقے کا قصور نہیں ہے دراصل ہر معاملے کو "فقط رقبے” کے تناظر میں دیکھنا اس کی مجبوری ہے۔ ورنہ جو سوال یہ معاملہ فدک پر اٹھاتا ہے وہ دراصل اسے خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کیا وجہ تھی جو سخیوں کے گھرانے کی وہ صدیقہ الکبری جس کے تین روز تک عین وقت افطار سائل آجانے پر افطار کا مختصر سا سامان سائل کو عطا کرکے اپنے معصوم بچوں اور شوہر کے ساتھ پانی سے روزہ افطار کرنے پر قرآن میں سورہ دہر نازل ہوجائے، آخر کیا وجہ تھی کہ وہ "ایک باغ” کیلئے حاکم کے دربار میں چلی گئی؟ ۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے "کاپی رائٹ ہولڈرز” جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی خاطر آپ ص کے موئے مبارک (بال) محفوظ کرکے ان کی زیارت کر کر کے آنسو بہاتے ہیں وہ سیدہ النساء العالمین سلام اللہ علیھا کو اس حق سے محروم کیے جانے کا دفاع کرتے ہیں جو انہی پیغمبر اکرم ص کا اپنی دختر ع کو دیا گیا ایک تحفہ تھا، ایک نشانی تھی۔ گویا آپ کیلئے پیغمبر ص کے بالوں کی نشانی اتنی عزیز (اور ہونی بھی چایئے) اور دختر رسول ص اپنے بابا ص کی نشانی کو غصب کیے جانے پر سوال پوچھیں تو آپ الٹا دختر رسول ص سے سوال پوچھ لیں کہ کیا آپ نے (نعوذ باللہ) وہ "حدیث واحد” نہیں سنی؟ افسوس اس امت کو پیغمر ص کے بال مبارک تو بہت عزیز ہیں مگر آل مبارک کی دفعہ ان کا عشق رسول ص معلوم نہیں کہاں چلا جاتا ہے۔۔
اگر کوئی آپ سے کہے کہ امام حسین علیہ السلام کے نزدیک حکومت کی کیا حیثیت؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ نواسہ رسول ص حکومت کیلئے جنگ کرے؟ ہم نہیں مانتے۔ یہ تو سخیوں کے گھرانے کا وارث ہے بھلا یہ دنیاوی حکومت کی اس کے نزدیک کیا حیثیت؟ تو آپ فورا اسے جواب دینگے کہ اے رقبوں کی فتح کے فضائیل سن سن کر مسلمان ہونے والے شخص، قیام سید الشہداء علیہ السلام ذبح عظیم کے قرآنی وعدے کی تکمیل تھی جس نے ہمیشہ کیلیے حق و باطل کا فرق واضح کرکے بتا دیا کہ ملوکیت زدہ اسلام کیا ہے اور اسلام محمدی ص کیا۔
جس نے واضح کردیا کہ وہ ہستیاں اور ہیں جنہیں فضیلت و منصب اللہ نے عطا کیا اور وہ لوگ اور جن کی فضیلتیں بھی خود ساختہ اور منصب بھی۔
یہی جواب سیدہ سلام اللہ علیھا کا اپنا حق مانگنے کیلئے دربار میں جانے کا ہے تاکہ آنے والے زمانے کیلئے ایک فرق وضع ہوجائے کہ حق کیا تھا اور باطل کیا۔ سیدہ سلام اللہ علیھا نے یہ واضح کر دیا کہ معاملہ فقط "ایک باغ” کا نہیں ہے بلکہ معاملہ سچ اور جھوٹ کا، حق اور باطل اور حقدار و غاصب کا ہے۔
معاملہ محبوب خدا ص کے اس تحفے کا ہے جو حجاب خدا ع کو دیا گیا۔ کاش بال رسول ص سے عشق کرنے والوں نے آل رسول ص سے بھی عشق کیا ہوتا تو آج بفرمان سیدہ سلام اللہ علیھا آج اسلام ایک زخمی ناقے کی مانند نظر نہ آتا جس سے جب دودھ دھویا جائے تو دودھ کی جگہ خون کی دھاریں نکلیں۔۔
نور درویش