اہم ترین خبریںمقالہ جات

ہزارہ شیعہ قوم کے خلاف ایک اور سازش

مگر افسوس کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی اس برادری کی مظلومیت کا اقرار کرنا تو کجا الٹا اسی پر مختلف الزام لگاتی نظر آئی

شیعت نیوز: آپ گوگل سرچ ہر فقط ہزارہ شیعہ لکھ کر سرچ کریں تو اکثریت تصاویر جنازوں کی زخمیوں کی یا ان ورثاء کی نظر آینگی جو نسل کشی بند کرو جیسی عبارتوں والے بینر پکڑے احتجاج کیلئے بیٹھے ہونگے۔ پچھلے دس بارہ سالوں کے دوران چاہے پاکستان ہو یا افغانستان، میں نے اس برادری کو مسلسل ظلم کا شکار ہوتے ہی دیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی خواتین اور بچوں تک کو شناخت کرکے مارا جاتا رہا۔ لاتعداد ہزارہ شیعہ ملک چھوڑ گئے اور جو ملک میں موجود تھے وہ ایک محصور زندگی گزارنے پر مجبور نظر آئے۔ یہی نسل کشی کی تعریف ہے جو عالمی ادارے کرتے ہیں کہ نسل کشی اُس متواتر عمل کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی قومی، لسانی، نسلی یا مذہبی کمیونٹی کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اِس کمیونٹی یا گروپ کے افراد کا قتل، اُنہیں ذہنی یا جسمانی نقصان پہنچانا یا عمدا ایسے حالات پیدا کرنا جس سے اِس کمیونٹی کی زندگیوں پر براہ راست تباہ کن اثرات مرتب ہوں۔۔

یہ بھی پڑھیں: جنوبی ایشیاکے عدم استحکام کی کوششوں کے نتیجے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا سنگین تنائج کا عندیہ

مگر افسوس کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی اس برادری کی مظلومیت کا اقرار کرنا تو کجا الٹا اسی پر مختلف الزام لگاتی نظر آئی۔ اس میں اوریا مقبول جیسے داعشوروں کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو نسل کشی کا شکار اس کمیونٹی کے خلاف گمراہ کن پراپگنڈہ کرکے عوامی رائے عامہ کو مزید خراب کرنے کا باعث بنتے رہے۔ معروف صحافی حیدر جاوید سید نے ایسے ہی گمراہ کن پراپگنڈے کے جواب میں "اسرائیل زادے جوتوں سمیت انکھوں میں گھستے ہیں” کہ عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں پوچھے گئے سوالات کا جواب اوریا مقبول آج تک نہ دے سکا۔۔

یہ بھی پڑھیں: ایف سی کی ایم ڈبلیوایم کے رہنما اور سابق وزیر قانون آغا رضا کی گاڑی پر فائرنگ

بہرحال اسی برادری سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں کے ہاتھوں گزشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک پشتون نوجوان مارا گیا۔ واقعے کا پس منظر جو بھی تھا، یہ اقدام ہر صورت میں قابل مذمت تھا۔ یہاں تک کہ خود ہزارہ برادری اس واقعے کی مذمت کرتی اور ذمہ داران کی کو سزا دینے کا مطالبہ کرتی نظر آئی۔ البتہ اس واقعے سے بھی زیادہ قابل مذمت رویہ اس طبقے کا تھا جس نے ہزارہ شیعہ نسل کشی کا تو کبھی اقرار نہ کیا لیکن اس ایک واقعے میں انہیں "ہزارہ کا ظلم” بھی نظر آگیا اور مرنے والوں کی "قومیت” بھی۔ جب بات بڑھی تو گدھ کی مانند لاشوں کے انتظار میں بیٹھے اس گروہ کو بھی ہزارہ شیعہ کے خلاف ایک بار بار نفرت کا پرچار کرنے کا موقع مل گیا جو ڈیڑھ ڈیڑھ سو بیگناہ ہزارہ کو قتل کرکے "کوئٹہ کی سنچری” جیسے سفاک ترانے گاتا رہا۔ اسی نفرت آمیز پراپگنڈہ کا نتیجہ آج اس صورت سامنے آیا کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال کے باہر تعینات ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ٹریفک پولیس اہلکار کو ہجوم نے تشدد کرکے زخمی کردیا۔ معملات یونہی چلتے رہے تو ہزارہ شیعہ برادری کیلئے مسائل مزید بڑھ جاینگے۔۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت مدارس دینیہ کے طلباءکے متاثرہ تعلیمی مستقبل کے حوالے سے فوری اقدامات کرے،علامہ علی بخش سجادی

یہ اس برادری کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے جو پہلے ہی ایک محصور زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جس کے ہزاروں افراد نسل کشی کا شکار ہوچکے اور ہزاروں ملک چھوڑ گئے۔ امید ہے کہ حالات مزید خراب ہونے سے پہلے سیکیورٹی ادارے ایک انفرادی جرم کو بنیاد بنا کر پوری برادری کے خلاف لسانی و فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینے والے عناصر کو قابو کریں گے۔ اگر مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود سمیت درجنوں دہشتگرد سرغنوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی پشتون شناخت کو بنیاد بنا کر کبھی تمام پشتون برادری کو مورود الزام نہیں ٹھہرایا گیا تو چند ہزارہ افراد کے انفرادی جرم کی وجہ سے پوری برادری کے خلاف محاز کھول دینا کہاں کا انصاف ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس مکتب فکر کی کوکھ سے وہ تکفیری ناسور پیدا ہوا جس نے 80 ہزار پاکستانیوں کی جان لے لی، اس مکتب فکر کا نام لینے سے بھی فرقہ واریت پھیل جاتی ہے البتہ ہزارہ برادری کے خلاف یہی ناسور "شیعہ کافر” کے نعرے لگا کر نفرت پھیلاتا رہے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ ۔

تحریر:نور درویش

متعلقہ مضامین

Back to top button