اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمشرق وسطیمقالہ جات

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قتل کی ایف آئی آر

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قتل کی ایف آئی آر

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قتل کی ایف آئی آر . ایک اور مرتبہ کالعدم دہشت گرد گروہ پاکستان میں فتنہ پھیلانے کے درپے ہے۔ اور اس مرتبہ اس تکفیری ناصبی دہشت گرد گروہ کے مولوی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نام استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس لئے پہلے تو ایک عام انسان اور خاص طور پر عام مسلمان یہ جان لے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کون تھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور امامت میں مسلمان علاقوں میں بنو امیہ کی خاندانی حکومت ہوا کرتی تھی۔ سلیمان اپنے بھائی ولید کے بعد بنوامیہ کی مروانی حکومت کا سربراہ بنا۔ اور اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کیاتھا۔ بعد ازاں وہ حکمران بنے۔

عمر بن عبد العزیز نے جو نیک کام کئے

حضرت عمر بن عبد العزیز نے جو نیک کام کئے ان پر ہر عادل مزاج مسلمان کا اتفاق ہے۔ گوکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تعلق بھی بنو امیہ ہی سے تھا لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں مالی اصلاحات پر سختی سے عمل کیا۔ اس پالیسی کے تحت بنوامیہ کی ذیلی شاخ بنو مروان سے ہر وہ چیز واپس لے لی جوامت مسلمہ سے غصب کرکے بنو مروان نے جمع کی تھیں۔

اسی پالیسی کے تحت انہوں نے باغ فدک علویوں کو لوٹادیا۔ باغ فدک جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی پیاری بیٹی خاتون جنت جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دے دیا تھا۔ اس باغ فدک کو خلافت کے دور میں حکومت کی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ پہلے دو خلفاء کے دور میں یہ حکومت کی تحویل میں رہا۔

ٍ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے دورحکومت میں باغ فدک خلیفہ کے داماد مروان بن حکم کو دے دیا گیا تھا۔ یعنی وہی مروان جو بنو مروان کی اموی حکومت کے سلسلے کا بانی بنا اور جس کے پوتے نے عمر بن عبدالعزیز کو جانشین مقرر کیا۔ سنی مورخین اور مفکرین کے مطابق عمر بن عبدالعزیز نے تمام غصب شدہ اموال اور جاگیریں انکے اصل مالکان کو واپس کیں۔

مسلمان ایرانیوں سے جزیہ

بنو امیہ کے دور حکومت میں امیر المومنین حضرت علی ع سے متعلق گستاخانہ و نازیبا نعرے لگائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ سانحہ کربلا کے بعد بھی امیر المومنین حضرت علی (ع) پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ یہ قبیح روایت بھی عمر بن عبدالعزیز نے ختم کروائی۔

یہی نہیں بلکہ بنو امیہ کی ملوکیت مسلمان ایرانیوں سے بھی جزیہ وصول کیا کرتی تھی۔ جزیہ یعنی وہ ٹیکس جو ایک مسلمان حکومت غیر مسلم شہریوں سے وصول کرتی ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے حکم جاری کیا کہ مسلمان ایرانیوں سے جزیہ ہرگز وصول نہ کیا جائے۔

بنو امیہ کی ضد اسلام روایات اور بنو مروان کی عیاشیاں

چونکہ انہوں نے بنو امیہ کی ضد اسلام روایات اور بنو مروان کی عیاشیاں ختم کیں اور مسلمانوں کے وسیع ترمفاد میں بعض اسلامی احکامات کو سختی سے نافذ کیا۔ محروم و مستضعف انسانوں کے غصب شدہ حقوق واپس دلوائے۔ اسی لیے ملوکیت کا پیروکار غاصب طبقہ یعنی بنو امیہ اور خاص طور پر بنو امیہ کا بنو مروانی طبقہ انکے سخت خلاف ہوگیا۔

ٍٍ عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک کو جانشین مقرر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ اپنے بعد جس شخصیت کو وہ نامز د کرنا چاہتے تھے وہ حضرت محمد بن ابوبکر کے پوتے عبدالرحمان بن قاسم تھے۔ یادرہے کہ عبدالرحمان بن قاسم امام جعفر صادق علیہ السلام کے ماموں تھے۔ ام فروہ فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔

عمر بن عبدالعزیز ایک محترم شخصیت

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حوالے سے یہ پس منظر مد نظر رکھ کر فیصلہ کرلیں کہ شیعہ اورایرانی دونوں ہی کے لیے عمر بن عبدالعزیز ایک محترم شخصیت ہیں۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی صرف ایک ہی ٹولہ کرسکتا ہے اور وہ ہے ناصبی جسے جدید دور میں آل سعود کا پھیلایا ہوا نظریہ وہابیت کہہ سکتے ہیں۔

حالانکہ نظریے کے لحاظ سے جدید دور میں اسکا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی سعودی ہے۔ اور برصغیر پاک و ہند میں بزرگان دین یا اولیائے خدا کے مزارات کو نہ ماننے والے ٹولے کو دیوبندی اور وہابی دونوں ہی عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے۔

سبھی سعودی وہابیت کے اتحادی تکفیری دہشت گرد

اورنگزیب فاروقی یا اسکی لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ یا جو بھی دیگر نام یہ رکھ لیں، یہ سبھی سعودی وہابیت کے اتحادی دیوبندی تکفیری دہشت گرد گروہ ہیں۔ پاکستان میں عبداللہ شاہ غازی کراچی کا مزار ہو یا علی ہجویری داتا دربار لاہور، یا بلوچستان میں مخدوم بلاول شاہ نورانی کا مزار ہو یا لعل شہباز قلندر کی درگاہ ہو۔ ہر جگہ خود کش بمبار جو پھٹتے رہے ہیں، انکی آئیڈیالوجی ایک ہی ہے۔ یعنی تکفیری، خواہ وہ دیوبندی کہلائیں یاوہابی۔

ٍ محمد بن عبدالوہاب نجدی نے کربلا میں مزارات مقدسہ مسمار کئے۔ آل سعود کی سرپرستی میں وہابیوں نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو مسمار کردیا۔ کتنے ہی صحابہ کرام کے مزارات تو مزارات قبور تک زمین بوس کردیں گئیں۔ اور آج بھی جنت البقیع اس تاریخی تکفیری ناصبی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت بن کر موجود ہے۔

صحابہ کرام کے مزارات کو منہدم کرنے والے

شام میں بھی صحابہ کرام کے مزارات کو منہدم کرنے والے یہی دہشت گردہیں جن کی سرپرست سعودی بادشاہت ہے۔ بظاہر داعش کے خلاف امریکا نے بین الاقوامی فوجی اتحاد بنارکھا ہے مگر داعش کا مذہبی نظریہ وہی سعودی وہابیت پر مبنی ہے جو بقول سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان کے امریکا و مغربی بلاک کے مفاد میں سعودیہ نے دنیا میں پھیلایا۔ داعش محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کی ہی تبلیغ کرتے آئے ہیں۔ شام میں یہ فتنہ تو خود امریکی سعودی مشترکہ منصوبے کے تحت پھیلایا گیا۔

بیس جون 1994ع کو ایران کے شہر مشہد میں امام رضاؑ کے مزار مقدس میں دہشت گردوں کے دھماکہ کیا تھا۔ اس سانحہ میں کم سے کم پچیس شیعہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔ یہ تو ہوئے اسلامی مقدسات پر حملے لیکن افغانستان کے شہر بامیان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے حکم پرمارچ 2001ع گوتم بدھ کے مجسمے بھی دھماکہ خیز مواد سے اڑائے گئے تھے۔ طالبان حکومت کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل رہی تھی۔

داعش تکفیریت کا تسلسل

داعش اسی تکفیریت کا تسلسل ہے جو القاعدہ کے عنوان سے امریکی سعودی مشترکہ منصوبے کے تحت نام نہاد افغان جہاد کے دور میں معرض وجود میں آیا تھا۔ اور اسی سلسلے کی ایک کڑی افغانستان کے طالبان تھے۔ اور اسی دور میں سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے نام سے اسکے پیروکارریاض بسرا اور دیگر نے افغانستان میں لشکر جھنگوی قائم کی تھی۔ اورنام نہاد افغان جہاد کے دور ہی میں سپاہ صحابہ پاکستان میں بانی پاکستان محمد علی جناح کو کافر قرار دے چکی تھی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قتل کی ایف آئی آر

واپس آتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز سے متعلق جاری مہم کی طرف۔ انکی قبر شام کے صوبہ ادلب میں ہے۔ ایک طویل عرصے سے امریکا، سعودیہ اور دیگر اتحادی ممالک نے مشترکہ منصوبے کے تحت شام میں ریاست مخالف عناصر اور گروہوں کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اور صوبہ ادلب جو ترکی کے ساتھ شامی سرحد پر واقع ہے، یہاں بھی شام کی حکومت کے مخالف دہشت گرد باغیوں کا ناجائز اور غیر قانونی قبضہ ہے۔

شام کی حکومت کے دشمن گروہوں کا قبضہ

یاد رہے کہ پلمیرا (تدمیر) یا صوبہ رقہ یا ریف دمشق سمیت جہاں بھی شام کی حکومت کے دشمن گروہوں نے قبضہ کیا، وہاں وہاں انہوں نے مزارات اور قدیم تاریخی عمارات تباہ کرڈالیں۔ رقہ میں مسجد حضرت اویس قرنی اور مزار اویس قرنی اور ریف دمشق میں حضرت حجر بن عدی کے مزار اور قبر کی بے حرمتی۔ عراق میں حضرت یونس ع کے مزار کی بے حرمتی۔ یہ سب کچھ ناصبی وہابی تکفیری مائنڈ سیٹ ہے۔

صوبہ ادلب میں ایک معاہدے کے تحت ترکی اور روس کی افواج مشترکہ گشت کرتیں ہیں۔ البتہ دہشت گردں کے ٹھکانے اب بھی موجود ہیں۔ اور ادلب سمیت بہت سے محاذوں پر امریکی نیٹو و غیر نیٹو اتحادیوں کا داخلی جھگڑا بھی ہے۔ ترکی نیٹو رکن ملک ہے۔ ادلب میں اگر دہشت گرد کچھ بھی کرتے ہیں تو اسکی بنیادی ذمے داری امریکی نیٹو و غیر نیٹو اتحادیوں پر ہی عائد ہوتی ہے اور کنٹرول کے لحاظ سے ترکی بھی اسکا ذمے دار ہے۔

یوم انہدام جنت البقیع

البتہ نظریاتی لحاظ سے یہ دہشت گرد سعودی وہابیت کے پیروکار ہیں۔ اور آٹھ شوال کو یوم انہدام جنت البقیع منایاجانا ہے۔

چونکہ اس دن پوری دنیا میں جنت البقیع کی مظلومیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ چونکہ اس دن آل سعودم وہابیت، تکفیریت اور ناصبیت اصلی چہرہ دنیا پر آشکار ہوتا ہے کہ سپاہ صحابہ اور اسکے آقا سعودی بادشاہ و شہزادے اور ناصبی تکفیری وہابی مولوی ہی اصل میں اہل بیت ع اور صحابہ کے مزارات اور قبور کی بے حرمتی کے ذمے دار ہیں۔

جھوٹا پروپیگنڈا

اسی لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ عبداللہ شاہ غازی، لعل شہباز قلندر، شاہ نورانی، داتا دربار، رحمان بابا کے مزار ات کواڑانے والے خود کش بمبار اور شیعہ مساجد اور امام بارگاہ اور ماتمی مجلس و جلوس میں پھٹنے والے خود کش بمبار، دونوں ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے۔ انہی کے بھائی بند ہر جگہ یہی خبیثانہ دہشت گردی کرتے ہیں۔

عمر بن عبدالعزیز کے قاتلوں پر لعنت

جہاں تک بات ہے عمر بن عبدالعزیز کی توحضرت عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے کرشہید کیا گیا تھا۔ اور جنہوں نے یہ کام کیا تھا، وہ وہی تھے کہ جن کی ناانصافیوں سے عمر بن عبدالعزیز نے امت کو نجات دلائی تھی۔ شیعہ مسلمان عمر بن عبدالعزیز کے قاتلوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔

اور جب تکفیریوں کو ان ملعونوں کے نام پتہ چلیں گے تو پھر شور مچادیں گے کہ شیعہ تبریٰ کرتے ہیں۔ تکفیری وکٹ کے ہر طرف کھیل رہے ہیں، یہ قاتل کے بھی ساتھ ہیں اور مقتول سے بھی ہمدردی کا ناٹک رچاتے ہیں۔ شیعہ مسلمان ایک طرف ہیں، دونوں طرف نہیں۔

اولیائے خدا کے مزارات کا دشمن کون، سب کو پتہ ہے!۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ ایران اور شام میں انسانی و اسلامی تاریخ کی اہم شخصیات کی قبور، مزارات اور یادگار بشار الاسد اور امام خامنہ ای صاحب کی حکومت کے دورمیں بہترین حالت میں سنبھالی جاتیں رہیں ہیں۔

جب تک صوبہ ادلب میں شام کی بشارالاسد حکومت کا کنٹرول تھا، تب تک حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی حالت بہترین تھی۔ اس تحریر کے ساتھ عکس دیا جارہا ہے اسے ملاحظہ کرلیں۔بشار الاسد کے دور حکومت میں عمر بن عبدالعزیز کا مزار زائرین کے لیے کھلا رہتا تھا۔

اور مزارات، قبور اور یادگاروں کی مسماری و انہدام و تاراجی کے ذمے دار پاکستان کے عام سنی کو بھی معلوم ہے کہ آل سعود ہیں یا انکے نمکخوار۔

کراچی، لاہور، سہون شریف میں پاکستان کی ریاست کی رٹ  قائم تھی۔ مگر پھر بھی تکفیری دہشت گردوں نے بزرگان کے مزارات میں خود کش بم دھماکے کئے۔ جو لوگ ریاست شام کو ادلب کے واقعات کا ذمے دار قرار دینے کی بھونڈی کوشش کررہے ہیں ان سے سوال ہے کہ کیا پاکستان میں مزارات پر ہونے والی دہشت گردی پر ریاست پاکستان کو ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے!؟ حالانکہ فرق یہ ہے کہ ادلب میں تو ایک طرف دہشت گرد باغیوں کا قبضہ ہے تو ساتھ ہی ترکی کی افواج بھی موجود ہیں۔ ریاست شام کی رٹ تو وہاں تاحال بحال نہیں ہوپائی۔ یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے۔

ایم ایس مہدی برائے شیعت نیوز اسپیشل

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قتل کی ایف آئی آر

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں

Jannatul Baqee graveyard Madinah, Saudi Arabia
یہ جنت البقیع میں چار آئمہ اہلبیت کی قبروں کی حالت ہے۔ انہی میں امام محمد باقر علیہ السلام کی قبرہے جن کے دور امامت میں عمر بن عبدالعزیزشام کے حکمران تھے۔ سعودی سلطنت ان قبور پر مزار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور ان قبور کی بھی یہ حالت کردی ہے۔
اور یہ عمر بن عبدالعزیز کا مزار ہے جو بشار الاسد کی شامی حکومت کے کنٹرول میں ایسا تھا۔ اب اگر اس پر کسی نے حملہ کیا ہے تو وہ سعودی سلطنت کےنمکخوار ہی ہوسکتے ہیں جو عمر بن عبدالعزیز کے مزار کو بھی جنت البقیع کی طرح مسمار کرنا چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button