اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلعراقمقالہ جات

عراقی جمہوریت کے ارتقائی سفر کامشکل مرحلہ

عراقی جمہوریت کے ارتقائی سفر کامشکل مرحلہ
تحریر : عین علی

شیعت نیوز اسپیشل

عراق میں موجودہ بحران کے بعض پہلوؤں پر تحریریں قارئین کی نذر کی جاچکیں۔ اب عراق کی صورتحال کوایک اور زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ عراق موجودہ عرب دنیا کی پہلی باقاعدہ منفرد جمہوریت ہے۔

عراقی جمہوریت کے ارتقائی سفر کامشکل مرحلہ

اور جب اس ناقابل تردید معروضی حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ عراق عرب دنیا کی پہلی جمہوریت ہے تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس عرب مسلمان جمہوریت سے کون خوفزدہ ہے؟

یعنی ایسے جمہوری عرب مسلمان عراق کا دشمن کون ہوسکتا ہے!؟ جب اس خوفزدہ جمہوریت دشمن یا دشمنوں کو شناخت کرلیں تونوزائیدہ عراقی جمہوریت کے ارتقائی سفر کی مشکلات بھی غیر متوقع ہر گز نہیں ہیں۔

عراقی جمہوریت سے پریشان شاہ و شیوخ

یقینا عرب مسلمان جمہوریت عراق کے ارتقائی سفر کا موجودہ مرحلہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مگر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ جن عرب مسلمان ممالک میں جمہوریت نہیں ہیں،عراق کی کامیاب جمہوریت سے انکی پریشانی بنتی بھی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن، مصر وغیرہ وغیرہ، اگر عراق کی طرح کا جمہوری سیاسی نظام وہاں نافذ ہوجائے تو پھر شیوخ و شاہ و ڈکٹیٹر حکمران شخصیات و خاندان کا انجام کیا ہوگا!؟

عراق کی صورتحال کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی درست زاویہ نگاہ ہے۔ عراق عرب مسلمان ممالک میں اپنی نوعیت کی پہلی جمہوریت ہے۔ گوکہ شام میں بھی الیکشن ہوتے ہیں، پارلیمنٹ بھی ہے۔ لیکن وہاں صدارتی نظام ہے۔ البتہ شام کو عراق کی جمہوریت سے اس لئے خطرہ نہیں کہ کم از کم دونوں ملکوں میں غیر منتخب موروثی خاندانی مطلق العنان شیوخ و شاہ و ڈکٹیٹر حکمران نہیں ہیں۔ لیکن صرف یہی ممالک نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہیں۔

عراق سے خوفزدہ اسرائیل

کسی بھی عرب مسلمان ملک میں نمائندہ عوامی سیاسی نظام سے جو سب سے زیادہ خوفزدہ ہے، وہ ہے اسرائیل۔ کیونکہ، عرب دنیا پر مسلط کردہ مصنوعی و جعلی ریاست اسرائیل کو کوئی جمہوری عرب ملک ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔

فلسطینیوں کو جب موقع ملا تو حماس کو اکثریت کے ساتھ منتخب کرلیا۔ تو عرب مسلمان ممالک میں نمائندہ جمہوری سیاسی نظام نہ ہونے کا اصل سبب اسرائیل ہی ہے۔

چونکہ غیر جمہوری سعودی، اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ عوام کو جوابدہ نہیں ہیں۔ا س لئے یہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہے۔ عرب رائے عامہ کے خوف سے زایونسٹ لابی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات انہوں نے خفیہ رکھے۔ ل

یکن اب یہ بے خوف نظر آتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب عرب ممالک میں انکے ہرکارے فعال ہیں۔ اب عرب حکمرانوں نے ایران ایران کاشور مچاکر فلسطین کے غاصب اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹادی ہے۔ اگر مذکورہ ممالک میں بھی عراق کی طرح جمہوریت ہوتی تو یہاں حکومتوں کو بھی اسرائیل کے خلاف ہونا پڑتا۔

عراق عالم عرب و اسلام کی فرنٹ لائن اسٹیٹ

تو اس وقت نہ عراق بلکہ لبنان بھی اسی وجہ سے نشانے پر ہے کہ یہاں عربوں کی نظر میں دشمن نمبر ایک اسرائیل ہے۔ یہ صرف اپنی جنگ نہیں لڑرہے بلکہ اس وقت عراق پوری عرب دنیا کے مشترکہ مفاد کی اہم ترین لڑائی کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا ہوا ہے۔ اورایرانی سفارتی دفاتر پر عراق میں حملوں سے بھی ثابت ہوگیا کہ عراق درست سمت میں سفر کررہا تھا۔ مرجعیت کے خلاف دشنام طرازی اور حشد الشعبی کے بعض سرکردہ افراد پر حملوں سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان سب کے پیچھے کون ہے؟

 

عراق کا تیل اور امریکا

چلیں اسی ذیل میں ایک اور پہلو پر بھی غور فرمائیں۔ بولیویا میں سامراج دشمن صدر کے خلاف بغاوت سے بھی ثابت ہوگیا کہ اس ملک کے لیتھیم ذخائر پر قبضہ اصل ہدف تھا۔ عراق کا تیل تو شروع سے ہی کارپوریٹوکریسی کی للچائی ہوئی نظروں کی زد پر رہا ہے۔اور ماضی میں برطانیہ نے عراق کی قومی دولت لوٹی۔

اب امریکا بھی یہاں قدرتی ذخائر پر کنٹرول اور اسرائیل کے تحفظ کے لئے موجود ہے۔

عراقی حکومت نے امریکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کی، امریکا کی ڈکٹیشن مسترد کردی تو کرپشن یاد آگئی۔ حالانکہ عراق میں تاریخ کی بدترین کرپشن امریکی اتحاد نے ہی کی ہے۔

بقول ہیلری کلنٹن ایک لاکھ قبائلی عراقی امریکی پے رول پر تھے۔ بقول سابق سربراہ سی آئی اے جارج ٹینیٹ عراق میں امریکی سی آئی اے کا نیٹ ورک صدام دور میں بھی فعال تھا۔ اسی لیے عراق کی صورتحال کے تناظر میں قتیل شفائی کا یہ شعر امریکی مغربی بلاک اور اسکے لے پالک عبری عربی اتحاد پر صادق آتا ہے کہ

ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام

اختتامیہ

امن و امان کی خراب صورتحال سے متعلق بھی افواہیں زیادہ ہیں۔ عراق کے حالات کو بڑھاچڑھاکرپیش کیا جارہا ہے۔ عراق کی عرب مسلم جمہوریت سے خوفزدہ اسلام دشمن و عرب دشمن حکومتیں اور حکام کامیاب نہیں ہوئے۔

عراق میں جمہوریت کا قیام مرجعیت کی رہنمائی میں عمل میں آیا ہے۔ اس وقت بھی عراق کی مرکزی مرجعیت رہنمائی میں مصروف ہے۔

اس عرب ملک کے اہم سیاسی اسٹیک ہولڈرزنے آیت اللہ سیستانی کا رہنما بیان سن لیا ہے۔ جمعہ 29نومبر کو کربلا کی نماز جمعہ میں انکا بیان پڑھ کر سنایا گیا۔ اور تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اب اسی کی روشنی میں سیاسی و انتخابی اصلاحات اور احتسابی عمل پر پیش رفت ہورہی ہے۔

عراق کی جمہوریت اپنے ارتقائی مراحل کو طے کررہی ہے۔ یقینا موجودہ مرحلہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن جب گرد تھمے گی تو پتہ چلے گا کہ عراقی عوام مرجعیت کی رہنمائی میں نکھر کر سامنے آچکے ہوں گے۔ ویسے بھی صدامی بعثی باقیات، تکفیری اوردیگر پراکسی ڈیجیٹل ایکٹیویسٹ ذلت و رسوائی کے ساتھ ناکام و نابودہوتے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

یہ بھی ملاحظہ کریں
Close
Back to top button