مقالہ جات

عمران خان کی کشمیرپرتوجہ اور فلسطین سے صرف نظر

یہ درست ہے کہ خان صاحب آخر میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے، لیکن یہ طبیعی امر ہے۔ اگر لڑنے کی بات کی گئی ہے تو اس پیغام کو درک کرنے کی ضرورت ہے

شیعت نیوز: کل وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ موضوع کے لحاظ سے بہترین تقریر تھی جس میں چار پوائنٹس کو اجاگر کیا گیا؛

1) عالمی حدّت (گلوبل وارمنگ)
2) غریب ممالک سے امیر ممالک میں لوٹ مار کے پیسوں کی ترسیل
3) اسلامو فوبیا
4) مسئلہ کشمیر

تقریر کی شروعات ایک عالمی مسئلے کے ساتھ کی گئی جو پوری دنیا کے لئے ایک خطرے کا باعث ہے۔ دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کا اثر پوری دنیا کے ماحول پر ہو رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر غریب ممالک سے مغربی ممالک جائز و ناجائز رقم کی ترسیل ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کبھی کسی فورم میں بات نہیں کی گئی، پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق اس طرف اشارہ کافی اہم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے مراد حتمی طور پر کرپشن کا پیسہ نہیں بلکہ ٹیکس سے بچنے کے لئے اور دیگر مقاصد کے لئے یہ پیسہ غریب ممالک سے باہر جاتا ہے۔ البتہ ایک فیکٹر یہ بھی ہوتا ہے کہ ان ممالک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے لوگوں کو عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے جس کی وجہ سے مستحکم ممالک میں انویسٹمنٹ کی طرف میلان رکھتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر اسلامو فوبیا کے متعلق گفتگو ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ دہشتگردی کو کسی مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ 9/11 سے قبل کسی بھی دہشتگردی کو مذہب سے نہیں جوڑا جاتا تھا لیکن اس کے بعد ہونے والی دہشتگردی کو بطور خاص اسلام سے جوڑا گیا۔

چوتھے نمبر پر مسئلہ کشمیر پر بات کی گئی۔ خانصاحب کی تقریر کا زیادہ حصّہ اسی پر مشتمل تھا، کم و بیش 26 منٹ تک اس مسئلے پر بات کی گئی۔ دنیا کو پہلی دفعہ آر ایس ایس کی فاشزم سے آگاہ کیا گيا اور یہ حقیقت بتائی گئی کہ نریندر مودی اس تنظیم کا تاحیات رکن ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اس فاشزم کی وجہ سے ہے۔ اسی کے زیر اثر بھارت بھر میں اقلیتوں پر ظلم و بربریت عروج پر ہے اور کشمیر کو مکمّل ہڑپ کرنے کے عملی قدم کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔ آر ایس ایس کے اس ذکر سے بھارتی میڈیا بری طرح تلملایا ہوا ہے اور اپنے ملک میں موجود ان رہنماؤں کو کوس رہا ہے جنہوں نے آر ایس ایس کی فاشزم پر بات کر کے خانصاحب کو پوائنٹ مہیا کیے۔ حالانکہ ان رہنماؤں کا قصور نہیں کیونکہ حقیقت میں آر ایس ایس بھارت کی سیکولر ازم کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر کی لیڈر محبوبہ مفتی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے عمران خان کی طرف سے دنیا کو آر ایس ایس کے متعلق آگاہ کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر میں ایک خاص بات کو کم لوگوں نے نوٹس کیا ہے، انہوں نے مہاتما گاندھی کا نام عزت و احترام سے لیتے ہوئے ان کو عظیم کہا اور کہا کہ آر ایس ایس کے فاشسٹ سوچ کی وجہ سے ان جیسے عظیم لیڈر کو قتل کیا گیا۔ یہ ایک بہت اہم پہلو ہے، اس طرح عمران خان نے حقیقی سیکولر بھارت سے فاشسٹ ہندو انتہا پسندی کو الگ کیا اور پیغام دیا کہ ہمیں نہ تو بھارت سے کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہندوؤں سے، بلکہ ان انتہا پسند ہندوؤں سے مسئلہ ہے جو اس وقت اقتدار پر قابض ہیں اور اپنے فاٹسٹ ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہم لاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں، جنگ ہوئی تو آخری دم تک لڑیں گے ، عمران خان کا دبنگ اعلان

خان صاحب نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ یہ آپ ہی ہیں جن پر اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کشمیر کو حق خود ارادیت دیں کیونکہ آپ نے ہی اس کا وعدہ کیا تھا۔ سب سے پہلے کشمیر میں کرفیو ہٹایا جائے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا وہ خانصاحب نے اقوام عالم کو پہلے ہی آگاہ کر دیا۔ کشمیری سڑکوں پر نکلیں گے اور بھارت ان پر طاقت کا استعمال کرے گا۔ اگر خدانخواستہ پلوامہ جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہوا تو بھارت اس کا الزام فورا پاکستان پر لگا کر حملہ کرے گا۔ غالبا بھارتی اداروں کا یہی منصوبہ ہے جس کو خانصاحب نے عالمی لیول پر طشت ازبام کیا۔

اب آتے ہیں ان باتوں کی طرف جن پر خان صاحب پر تنقید کی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ان کی تقریر کا دورانیہ پچاس منٹ رہا حالانکہ جنرل اسمبلی میں 15 منٹ دیے جاتے ہیں، اس کے بعد زیادہ سے زیادہ پچیس منٹ تک جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب کو دورانیے کا خیال کرنا چاہیے تھا لیکن جنرل اسمبلی میں ان سے قبل بھی اس دورانیے سے زیادہ بات چیت ہوتی رہی ہے، اس سے قبل ایران کے محمود احمدی نژاد اور ونیزویلا کے ہیوگو شاویز نے بھی لمبی تقریریں کی تھیں۔ اس طرح کے رہنما جب کسی مسئلے کے ساتھ آتے ہیں تو ان کی تقریر لمبی ہو جاتی ہے، لہذا اس بنیاد پر ان پر تنقید کے بجائے ان کی گفتگو پر بات کی جائے۔

کہا جا رہا ہے کہ خان صاحب آخر میں جا کر کافی جذباتی ہو گئے اور کسی سربراہ ممالک کو زیب نہیں دیتا کہ عالمی فورم پر خود اسلحہ اٹھا کر لڑنے کی بات کرے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب آخر میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے، لیکن یہ طبیعی امر ہے۔ اگر لڑنے کی بات کی گئی ہے تو اس پیغام کو درک کرنے کی ضرورت ہے، خان صاحب صرف متنبہ کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل نہ کیا گیا اور کشمیریوں کی طرف سے پلوامہ جیسا رد عمل ہوا تو فروری 2019 کی طرح بات جنگ و جدل تک جائے گی اور اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہر پاکستانی آخری سانس تک لڑے گا۔ البتہ "لا الہ الا اللہ” کہنے سے گفتگو کا رخ اس طرف مڑ گیا جو کہ شاید مناسب نہیں تھا لیکن یاد رہ کہ خانصاحب کی یہ تقریر فی البدیہہ تھی، لکھی ہوئی تقریر ساتھ نہیں لائے تھے لہذا تسلسل میں ایسی کوئی بات نظر انداز کی جا سکتی ہے۔

بھارتی میڈیا اس وقت عمران خان پر شدید تنقید کر رہا ہے جن میں سرفہرست تقریر کا دورانیہ، ہندو انتہا پسندی کی طرف اشارہ، مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا، آر ایس ایس اور مودی کی اصلیت بتانا اور آخر میں خانصاحب کا جذبات میں اسلحہ اٹھانے کی بات۔ تاہم عالمی میڈیا نے خان صاحب کی تقریر کو ہر پہلو سے مثبت لیا اور جنگ کے خدشات کو درک کیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان عالمی لیول پر امن کے داعی کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں مذاکرات میں ثالثی کا کردار اور حالیہ مشرق وسطی کے معاملے میں امریکہ و سعودی عرب کا پاکستان کو ایران کے ساتھ گفتگو کا مینڈیٹ دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے۔ ان کی تقریر کے کسی بھی پہلو کو جنگ کی خواہش کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

وزیر اعظم کی تقریر میں ایک کمی مجھ خاکسار کو لگی جس کا ذکر کرنا چاہیے تھا، اور وہ مسئلہ فلسطین ہے۔ ٹھیک اس وقت جبکہ کشمیری ظلم کا شکار ہیں فلسطین بھی مظالم کا شکار ہیں، جہاں اس وقت بھی ہر دوسرے روز شہادتیں ہو رہی ہیں۔ اگر اقوام متحدہ نے کشمیر پر قرارداد منظور کی ہے تو اسی طرح فلسطین پر بھی قراردادیں موجود ہیں اور اس وقت مسئلہ فلسطین عالمی برادری کی غفلت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان فلسطین پر بھی بات کر لیتے تو ان کو بجا طور پر عالم اسلام کا لیڈر ڈکلیئر کیا جا سکتا تھا۔

تحریر: سید جواد حسین رضوی

متعلقہ مضامین

Back to top button