اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

شیعہ مسنگ پرسنز کا مقدمہ

تحریر : عین علی

مسنگ پرسنز پاکستان میں استعمال کی جانے والی ایک ایسی اصطلاح ہے جو مظلوموں کی مظلومیت کی انتہا کا استعارہ ہے۔انگریزی الفاظ مسنگ پرسنز کا آسان اردو ترجمہ ہے گمشدہ افراد۔ حالانکہ جن مظلوموں کے لئے یہ اصطلاح صحافی استعمال کرنے لگے ہیں، یہ گمشدہ کسی طور نہیں کہلائے جاسکتے۔

مسنگ پرسنز کون؟؟

انگریزی میں جس کیفیت کو انفورسڈ ڈس اپیئرنس کہا جاتا ہے، پاکستانی صحافی اسے مسنگ پرسنز کا غلط عنوان دینے پر مجبور ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مسنگ پرسنز بنانے میں ریاست خود ملوث ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں کے اہلکار پاکستانی شہری کو غیر اعلانیہ تحویل میں لے کر قید کرلیتے ہیں۔تو ایسے بدقسمت پاکستانی قیدیوں کو مسنگ پرسنز کہا جاتا ہے۔

کس منہ سے وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ میں مودی کے خلاف سینہ تان سکیں گے۔ اگر کسی بھارتی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ پہلے اپنے ہم وطن پاکستانی شہریوں کو تو وہ حقوق دے دو جو کشمیریوں کے لئے مانگ رہے ہو۔

شیعہ مسنگ پرسنز

ریاست کے ان غیر اعلانیہ قیدیوں یا بدقسمت پاکستانی شہریوں میں دہشت گردی و نسل کشی کا شکار شیعہ مسلمان بھی شامل ہیں۔ اور یہی پہلو سب سے زیادہ دردناک اسلئے بھی ہے کہ پاکستان کی شیعہ کمیونٹی علیحدگی پسند نہیں ہے۔ پھر بھی انہیں ریاستی مجرم قرار دے کر غیر اعلانیہ قیدی بناکر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسے بدقسمت قیدیوں میں اب ملتان کے شیعہ وکیل یافث نوید ہاشمی کا اضافہ ہوگیا ہے۔

انجینیئر ممتاز رضوی جیسے سماجی کارکن جو فلاحی و تعلیمی شعبوں میں انسانیت کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ ایک طویل عرصے سے انفورسڈ ڈس اپیئرنس کی پالیسی کا شکار ہیں۔ ایک اور سماجی کارکن جو کہ عالم دین بھی ہیں علامہ ظہیر الدین بابر بھی ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان گنت پاکستانی مسنگ پرسنز میں ایسے نام ور شیعہ، پاکستان کے غیر ت مند بیٹے بھی شامل ہیں۔

ہاں گئے تھے؟! ایران، عراق، شام میں مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے۔ بس یہ جرم ہے! کیونکہ امریکا، سعودیہ، امارات کو شبہ ہے کہ پاکستانی شیعہ بھی مقاومت اسلامی کے ساتھ کسی محاذ پر شریک ہوئے ہوں گے۔

بلوچ پاکستانیوں پر علیحدگی پسندی کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ بعض سندھی پاکستانیوں کو بھی اسی نوعیت کے الزام کا سامنا ہے۔ اب پشتون پاکستانی بھی اسی الزام کی زد پر ہیں۔ اردو زبان پاکستانیوں کے ایک طبقے کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی تقریر کے بعد غداری کے الزام کا سامنا تھا۔ لیکن شیعہ کمیونٹی پرتو ایساکوئی الزام بھی نہیں۔ پھر کیوں انہیں بھی مسنگ پرسنز بنادیا گیا؟!

امریکی، سعودی اماراتی دباؤ

ممکن ہے کہ پاکستان کے مستند سیاسی کارکنان طنزیہ انداز میں پھبتی کسیں۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے!! جب ریاست سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے شیوخ و شاہوں سے ادھار کو امداد کا نقاب ڈال کر قوم کے سامنے فخر سے پیش کرے۔ جب ریاست امریکا کے کہنے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے تو کیا بدلے میں امریکا، سعودیہ و امارات نے کچھ نہیں مانگا ہوگا؟

ہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے خوں خوار پہلے شام گئے تھے، انکے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟! ہے کوئی پوچھنے والا؟

لسانی گروہوں کے معاملات کی نوعیت مختلف ہے۔ مگر شیعہ کمیونٹی کے ساتھ ریاست کا سوتیلا سلوک اور بعض دہشت گردگروہوں کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بھی انکے سرغنہ و سہولت کاروں کو لاڈلا بناکر رکھا جانا، کون نہیں جانتا کہ اسکے پیچھے ادھار دینے والے ممالک کی حکومتیں اور ادارے ہیں۔

بین الاقوامی شیعہ کنیکشن

ایران شیعہ، عراق شیعہ، حزب اللہ لبنان شیعہ، بحرین میں شیعہ، شام اور یمن میں شیعوں کے دوست اور اتحادی۔ اور ہر جگہ امریکی بلاک کو ذلت آمیز شکست کا سامنا۔ جعلی ریاست اسرائیل کے ان یاروں نے اپنی غلطی ماننی نہیں، انسانیت کے خلاف انکے جرائم کو انکے نمک خواروں نے تسلیم کرنا نہیں۔ اور ان ناکامیوں کا، ذلت و رسوائی اور شکست فاش کا انتقام اب کس سے لیں؟

اسکے لئے پاکستانی شیعہ شہریوں کی گردن ہی سب سے زیادہ پتلی ہے۔ نائیجریا سے لے کر یمن تک اور آگے فلسطین و لبنان یعنی بحیرہ روم تک شیعہ مظلوم سہی لیکن ظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ مقاومت کررہے ہیں۔ حملے اور سازشیں ناکام بنارہے ہیں۔

دوسری طرف ریاست کے خلاف کچھ نہ کرکے بھی پاکستانی شیعہ کو ان حالات کاسامنا ہے جن کا سامنا غداروں، علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کوکرنا چاہیے تھا۔ پاکستانی شیعہ کی حب الوطنی، وطن دوستی، ریاستی اداروں کے ظلم وستم پر خاموشی، کچھ بھی انکے کام نہیں آرہی۔ حالانکہ سارے ہی مسنگ پرسنز کے ورثاء کا جائز مطالبہ یہی ہے کہ ان کو یا تو عدالتوں میں پیش کردیں تاکہ قانونی دفاع کرسکیں یا پھر باعزت بری کردیں کیونکہ الزام ثابت کرسکتے ہوتے تو اب تک کرچکے ہوتے۔

حرم سیدہ زینب س کا دفاع بھی جرم!؟

کہاں گئے تھے؟! ایران، عراق، شام میں مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے۔ بس یہ جرم ہے! کیونکہ امریکا، سعودیہ، امارات کو شبہ ہے کہ پاکستانی شیعہ بھی مقاومت اسلامی کے ساتھ کسی محاذ پر شریک ہوئے ہوں گے۔ اندازہ۔ تکا مارنے میں کسی کا کیا جاتا ہے۔ فرض کریں، شام گئے۔ پہلے کون گیا؟ یہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے خوں خوار پہلے شام گئے تھے، انکے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟! ہے کوئی پوچھنے والا؟! مسلمان جس ہستی کو اللہ کا آخری نبی کہتے ہیں، اسی سید و سردار انبیاء ص کی پیاری نواسی بی بی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا مزار مقدس شام کے دارالحکومت دمشق میں ہے، کیا اس کا تحفظ کرنا جرم ہے یا گناہ ہے؟؟؟کیا صحابہ کرام ؓ کے مزارات کا تحفظ کرنا جرم ہے۔

انگریزی میں جس کیفیت کو انفورسڈ ڈس اپیئرنس کہا جاتا ہے، پاکستانی صحافی اسے مسنگ پرسنز کا غلط عنوان دینے پر مجبور ہیں۔

مقبوضہ کشمیر، موذی سرکار اور ریاست پاکستان

وقت آگیا ہے کہ اب ان سارے معاملات پر سوالات اٹھائے جانے چاہئیں۔ ریاست پاکستان میں موذی صفت کون ہیں، انکو بے نقاب کرکے انکا احتساب کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے بھی تو پاکستانی شہریوں کے ساتھ وہ سب کچھ کیا ہے جو بھارت کی موذی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کرتی ہے۔ یہی تو وہ بدبخت ہیں جنہوں نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔ کس منہ سے وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ میں مودی کے خلاف سینہ تان سکیں گے۔ کس منہ سے وہ کشمیریوں کی مظلومیت پر بات کریں گے۔

اگر کسی بھارتی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ پہلے اپنے ہم وطن پاکستانی شہریوں کو تو وہ حقوق دے دو جو کشمیریوں کے لئے مانگ رہے ہو۔ بغیر کرفیو کے، بغیر میڈیا بلیک آؤٹ کے، پاکستانی شہری ریاست کے غیر اعلانیہ قید ی۔ نہ انکے ورثاء کو معلوم کہ کہاں ہیں، کس کی قید میں ہیں اور کس الزام میں قید ہیں۔ نہ انہیں قانونی دفاع کے لئے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی وکیل تک انہیں رسائی دی جاتی ہے۔ مقبوضہ وادی کے کشمیریوں میں اور پاکستان کے ان مسنگ پرسنز میں فرق کیا ہے، ریاست کیسے بتاسکے گی!؟

متعلقہ مضامین

Back to top button