مقالہ جات

اے کردار بوذرؓ و سلمانؓ کے داعی، ہوشیار باش!

حامد زید صاحب اگر سچے مسلمان ہیں تو ان سے یہ سوال ہے کہ اگر کسی دن خدانخواستہ کسی نے حرمین شریفین پر حملہ کرنے سوچا تو کیا کسی باغیرت مسلمان کی غیرت کو یہ گوارا ہے کہ وہ اپنے گرم اور نرم بستر پر بیٹھا رہے اور حرمین شریفین پر حملہ ہوجائے

شیعت نیوز: حامد زید صاحب کا کالم «اے گفتار ابوبکرؓ و علیؑ، ہوشیار باش» پڑھنے کا شرف ملا جس میں موصوف نے حقائق اور اکاذیب کو باہم ملاتے ہوئے ایک نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے جو ان کی تحریروں میں اکثر و بیشتر نظر آتا ہے۔موصوف جو کہہ رہا ہے کہ شیعہ دہشتگرد گروہ پکڑا گیا ہے جس کی مالی سپورٹ ایران کر رہا تھا، یہ محض ایک دعوی ہے جو انہوں نے اپنی پرانی روش کے تحت شیعہ اور ہمسایہ ملک دونوں پر الزام لگانے کی کوشش کی ہے لیکن ایک صحافی اور قلم فرسائی کرنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ ملزم اور مجرم میں بڑا فرق ہوتا ہے اور جبتک کسی منصف عدالت سے کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا تب تک پکڑا جانے والا شخص ملزم کہلاتا ہے اور اگر عدالت میں اس کا جرم ثابت ہوجائے تو وہ مجرم کہلاتا ہے اور اس کے بعد ہی کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس شخص کے بارے میں قلم اٹھائے۔

اگر موصوف کی بات صحیح بھی ہو کہ سپاہ محمد سے تعلق رکھنے والے افراد پکڑے گئے ہیں لیکن اتنا صبر کر لیتے کہ ریاستی ادارے اس بات کی تائید بھی کرتے ہیں یا نہیں۔میرا ملک پاکستان کسی دہشت گرد گروہ کی حمایت کرتا بھی ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں لیکن یاد تو ہوگا جب افغانستان میں طالبان پہلی بار محترمہ بےنظیر کے دور میں جنگی ساز و سامان کے ساتھ داخل ہوئی تو اس کے پیچھے کون تھا اور کس کے ایماء پر یہ سب ہورہا تھا، اور موصوف کو یہ بھی علم ہوگا کہ اسی دہشتگرد گروہ نے افغانستان میں شیعوں کے خلاف کیا کیا جرائم انجام دئے جس میں کسی زن و مرد اور صغیر و کبیر کا امتیاز تک نہیں رکھا جب کہ ہر جنگ کی ابتدائی اصولوں میں سے سمجھا جاتا ہے اور صدر اسلام سے اب تک یہاں تک غیر مسلم بھی خواتین، بچے اور بوڑھوں کو آزار و اذیت سے اجتناب کرتے ہیں لیکن، افغانستان میں شیعوں کے خلاف تمام تر حدیں پار ہوگئیں۔

موصوف نے ایرانی قیادت سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے لیکن کسی ایسی شخصیت کا نام نہیں لیا کہ وہ قیادت کون تھی اور کب اور کہاں پر ان سے ملاقات کی اور حامد زید صاحب سے کس عنوان سے ملاقات کی!البتہ کسی بھی ملک میں ممکن ہے دوسرے ممالک کی نسبت غلط پروپیگنڈہ ہو جس کی ایک زندہ مثال خود حامد زید صاحب کا آرٹیکل ہی ہے جس میں بڑی مہارت سے ایران پر الزام تراشی کی ہے جس کو عام قاری جس کو پاکستان کی تاریخ سے نابلد شخص سچ ہی سمجھ بیٹھتا ہے۔

راقم الحروف کا واسطہ سالہا سال سے ایرانیوں سے رہا ہے اور اب بھی ان سے واسطہ ہے اور کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ ایرانی پاکستانیوں کو دشمن تصور کرتے ہوں، اس کے لیے واضح سی مثال جب پاکستان میں ویران کن سیلاب آیا تو ایران کے سپریم لیڈر عید کے خطبے میں پاکستانی قوم کی اس درد میں شریک ہوتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور پوری ایرانی قوم و ملت سے تعاون اور مدد کی اپیل کی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں کیمپ لگے اور چندہ جمع کیا گیا۔ اگر پاکستان کو دشمن سمجھتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا وہ بھی اتنے وسیع پیمانے پر۔

حامد زید صاحب کا کہنا ہے کہ اہل تشیع پر مظالم اور نسل کشی کی جھوٹی داستانیں بڑی مہارت کے ساتھ گھڑا گیا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کی نسل کشی اور کئی سالوں سے آئے روز مارے جانے کے واقعات اور حادثات کو کیا نام دیں گے؟! کیا یہ اہل تشیع کے خلاف ہونے والے مظالم کا حصہ نہیں؟! ہاں اگر موصوف کہتے ہیں کہ بم بلاسٹ ہوا ہے اور پوری قوم ایسے حادثات کی زد میں ہے، تو عرض ہے جی اگر کسی عام جگہ بم بلاسٹ ہو، دھماکہ ہو اور اس میں دو چار اہل تشیع میں سے بھی مر جائیں تو بات صحیح ہے لیکن شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنائیں، بسوں سے ہزارہ برادری کو اتار کر قتل کرنا یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟

گلگت بلتستان میں سانحہ چلاس، سانحہ کوہستان اور سانحہ بابوسر ٹاپ تینوں حادثات میں کیا شیعوں کی شناخت کے بعد قتل نہیں کیا ؟ کیا یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟ کبھی ایسا بھی کوئی حادثہ مملکت خداداد پاکستان میں پیش آیا ہے کہ جس میں اہل سنت برادری کے کسی فرد کی شناخت کے بعد محض اس لئے قتل کیا گیا ہو کہ وہ سنی تھا؟

1987ء میں پاراچنار کے شیعوں پر حملہ اس کے بعد پھر 1996ء میں حملہ اور پھر آخر میں پاراچنار کے شیعوں کو تین سال تک محاصرے میں رکھ کر چاروں طرف سے حملے کئے گئے اور اس کے بعد کئی سالوں تک پشاور سے ان مظلوموں کا رابطہ منقطع رہا اور افغانستان کے راستے سے پارا چنار جانا پڑا کیا یہ شیعہ نسل کشی نہیں تھی؟ یا یہ دہشت گردی نہیں تھی؟

البتہ پاکستان میں تمام مذاہب کے لیے پوری آزادی ہے اس سے کس کو انکار نہیں اور ہونا بھی چاہیے، اور یہ شیعوں پر کوئی احسان بھی نہیں ہے کیونکہ شیعوں نے قیام پاکستان کے دوران قربانیاں پیش کیں اور انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے ورنہ تو اہل سنت کے بہت سارے اکابر قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے جس سے مطالعہ پاکستان کا ہر طالبعلم بخوبی آگاہ ہے۔

موصوف کہتے ہیں کہ ایران، پاکستان کو دشمن تصور کر کے پاکستان میں دہشت گروہوں اور بھارت کی حمایت کرتا ہے اور یہ بات بھی الزام تراشیوں کا ہی حصہ ہے، موصوف نے سعودی عرب اور ایران کو برابر میں لاتے ہوئے الزامات پھر ایران پر لگائے ہیں۔یمن کی جنگ میں بےطرف رہنے کی تو بات کی ہے لیکن جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب کی ملازمت کا ذکر نہیں کیا ہے جبکہ قانون کے مطابق ایک اعلی عہدے دار اپنی ملازمت سے فراغت کے ایک عرصے تک کسی بھی سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں لیکن راحیل شریف کو یہ چھوٹ کیسے ملی اور کیوں کسی نے کچھ نہیں کہا؟

 

اس میں شک نہیں کہ پاکستان یمن کی جنگ کا حصہ نہیں تو یہ ایران پر کیا احسان ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ یمن کے مظلوموں کی پاکستان کھل کر حمایت کرتا، پیغمبر اکرمؐ کے صحابی اویس قرنی کے ملک کو زمینی اور ہوائی حملوں سے ویران کردیا گیا لیکن پاکستانی گورنمنٹ نے ان کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں کہا، کیا مظلوم کی حمایت کرنا انسانی بنیادوں پر ایک مسلمان کا فرض نہیں بنتا ہے؟ کونوا للظالم خصما و اللمظلوم عونا کے تحت پاکستان کو چاہیے تو یہ تھا کہ سعودی عرب کے خلاف بولے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آیا بلکہ یمن کے ہزاروں بےگناہ بچوں، خواتین اور بزرگوں کے خون کا ذمہ دار جب پاکستان آیا تو اعلی قیادت نے اس کی ڈرائیونگ تک کو اپنے لئے افتخار سمجھا، تو ایسے میں کیسے کہتے ہو کہ یمن کے خلاف کچھ نہیں کیا، یمن کے خلاف سعودی عرب کی حمایت نہیں کی!!!

حامد زید صاحب اگر سچے مسلمان ہیں تو ان سے یہ سوال ہے کہ اگر کسی دن خدانخواستہ کسی نے حرمین شریفین پر حملہ کرنے سوچا تو کیا کسی باغیرت مسلمان کی غیرت کو یہ گوارا ہے کہ وہ اپنے گرم اور نرم بستر پر بیٹھا رہے اور حرمین شریفین پر حملہ ہوجائے، میرے خیال میں اگر کسی میں ذرہ برابر اسلامی جذبہ ہو تو کبھی ایسا برداشت نہیں کرسکتا بلکہ یہ کہنا بھی بےجا نہیں ہوگا کہ ایسا شخص مسلمان کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہوگا جو اسلامی مقدسات پر حملہ ہوتا دیکھے اور اس کے مقابلے میں خاموش رہے، اور اگر یاد ہو تو جب سعودی عرب نے اپنی جعلی مظلومیت پیش کی اور کہا حرمین شریفین پر حملہ ہونے والا ہے تو پاکستان کی پوری ریاست اور تمام اکابرین اور عوام نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا اور بھرپور حمایت کا اعلان کیا ۔ ممکن ہے کسی نے اس جذبے کا اظہار سعودی عرب کی محبت میں کی ہو لیکن سچے مسلمانوں نے صرف اور صرف مسلمان ہونے کے ناطے اپنے فریضے کی نشاندہی کی ہے اور اس میں شیعہ بھی کسی سے پیچھے نہیں اگر کسی نے حرمین شریفین کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو سب سے پہلے شیعہ جوان ہی اس آنکھ کو نشانہ بنائیں گے، لیکن حامد زید صاحب، کیا جنت البقیع میں اصحاب اور ازواج پیغمبر اکرم مدفون نہیں تھے؟ کیا جنت البقیع کو منہدم کرنے والے ظالم اور جابر کے خلاف بھی کبھی اسطرح سے آواز اٹھائی ہے؟ کبھی تو یہ نشاندہی کرنے کی جرائت پیدا کریں کہ جنت البقیع میں موجود مقدس مقامات کو کس نے مسمار کیا؟ کیوں آج تک ویران پڑے ہیں؟

جب ہم سرمین حجاز میں موجود حرمین شریفین کے دفاع کے لئے تیار ہیں تو سرزمین شام میں بھی نواسی رسول کا مزار، اصحاب رسول کے مزارات، ہمارے مقدسات میں شامل ہیں ان کا دفاع کرنا بھی ہم سب کا فرض بنتا ہے، جب سعودی عرب میں موجود مقدسات کا دفاع کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے والے سچے مسلمان ہوسکتے ہیں تو نواسی رسول کے مزار کا دفاع کرنے والے کیسے دہشتگرد ہوگئے، یہ یک بام دو ہوا کیسا؟اس آرٹیکل کے آخر میں سب سے نازیبا جو بات کی ہے وہ پاکستان میں ملت تشیع کی اکثریت کو نادان اور بےوقوف کہنا ہے اور یہ ایک منصف شخص کے لیے تو ممکن نہیں، کوئی بھی عاقل اور آزاد انسان کسی ملت اور قوم کے لئے ایسے نازیبا الفاظ استعمال نہیں کرتا ہے، اگر کہیں کسی کو ایسے الفاظ کہتے ہوئے یا لکھتے ہوئے پایا تو یہ سمجھ لو کہ وہ تو یا اپنی عقل کھو بیٹھا ہے جس کی وجہ سے اسے ہر کوئی اپنا جیسا بےوقوف نظر آتا ہے، یا قلم آزاد نہیں ہے جس کی وجہ سے دوسروں کی ایما پر قلم چلتا ہے تو جہاں وہ لے جانا چاہیں اسی طرف قلم لے جانے پر مجبور ہے اور ان دونوں صورتوں میں وہ شخص «ختم اللہ علی قلوبہم و علی سمعھم و علی ابصارھم غشاوۃ» کا مصداق بنتا ہے۔

حرف آخر: حامد زید صاحب کے اس آرٹیکل میں ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے اور ایک دوسرے کا دشمن دکھا نے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے لیکن نہ تو پاکستان قوم اتنی بےقوف ہے حامد زید جیسوں کی باتوں میں آجائے اور نہ ہی ایرانی قوم اتنی بےوقوف ہے کہ اس طرح کے پروپیگنڈوں سے پاکستان سے دور ہوجائے۔ پاکستان اور ایران کی دوستی تھی دوست ہیں اور دوست رہیں گے اگرچہ بہت ساروں کو ان کی دوستی ہضم نہیں ہوگی۔ اسی دوستی کا واضح ثبوت وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کا ایران کا حالیہ دورہ اور اس میں ہونے والے باہمی مذاکرات ہیں جس میں وزیر اعظم صاحب کی طرف سے پیش کردہ موقف پاکستانی قوم کا بھی موقف ہے کہ دونوں ممالک کا رشتہ پرانا اور مضبوط ہے اور یہ مضبوط رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ دونوں ملکوں نے دہشتگردی کے خلاف بارڈر پر فورس بنانے کی جو مفاہمت کی ہے وہ بھی بہت اچھا قدم ہے تاکہ دشمن اس بارڈر پر سازشوں کے ذریعے دونوں ممالک میں دوریاں پیدا کرنے میں ناکام رہے اور حامد زید جیسوں کے لیے بھی مزید آنکھ بند کر کے کیچڑ اچھالنے کا موقع نہ ملے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button