مقالہ جات

بولٹن کا مقصد ایران پرحملہ ہے

شیعیت نیوز: روسی نیوزایجنسی میں روس کے ایک معروف تجزیہ کار Vladimir Sagein کی جانب سے ایک مضمون چھپا ہے کہ جس میں اس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے سیکورٹی امور کااسسٹنٹ جون بولٹن ایران پر حملے کا سوچ رہا ہے ۔مضمون نگار امریکی ایک اخبار میں لیک ہونے والی اس خبر پر تبصرہ کررہا تھا کہ جس نے گذشتہ ہفتوں سے عالمی میڈیا کے ایک بڑے حصے کو مصروف کررکھا ہے

اخبار وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ امریکی سابقہ اور موجودہ کچھ سیاست دانوں نےانہیں بتایا ہے کہ بولٹن کی قیادت میں امریکی نیشنل سیکورٹی ڈیپارنمنٹ نے پینٹاگون سے کہا تھا کہ وہ ایران پر حملے کے لئے تیار ہوجائے ۔

بولٹن نے ایران پر حملے کا بہانہ وہ چند راکٹ بتائے تھے جو عراق میں امریکی قونصل خانے کے قریب آگرے تھے کہ جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کے پچھے ایرانی حمایت یافتہ گروہ ہوسکتےہیں ۔جبکہ اس سے پہلے بغداد کے ڈیپلومیٹک انکلیو میں کہ جہاں امریکی ایمبیسی بھی موجود ہے چند راکٹ آگرے تھے ۔
اس واقعے کے بعد امریکی قومی سلامتی کے ادارے نے کچھ میٹنگز کی اور ان میٹنگز کے بعد بولٹن نے پینٹاگون سے کہا کہ وہ ایک حملے کے آپشنز کے بارے میں بریف کریں
مضمون نگار کا مزید کہنا ہے کہ ہر ملک کے مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرایسے مسائل میں کچھ ابتدائی اقدامات کے بارے غور کیا جاتا ہے کہ جس میں ایک طاقت کے حامل دشمن پر ضرب لگانا اور اپنا دفاع کرنا وغیرہ شامل ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوجی ہیڈکوارٹر میں بھی ایران کیخلاف مختلف قسم کے آپشنز پر غور خوص کیا جاچکا ہے ۔مضمون نگار کے خیال میں جان بولٹن کا ایشو کی کچھ اور پہلو رکھتا ہے کیونکہ آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ بولٹن کی جانب سے پینٹاگون کو ایران پر حملے کے آپشنز کے لئے تیار رہنے کی بات صدر ٹرمپ کے علم میں لائے بغیر ذاتی نوعیت کی بات تھی ۔یہی وجہ ہے کہ یہ بات پینٹاگون کے لئے بھی اچنبے کی لگی کہ جس کی وہ بالکل بھی توقع نہیں رکھ رہا تھا یہاں تک کہ پینٹاگون کے بہت سےآگاہ اور جانکاری رکھنے والے ملازمین حیرت زدہ تھے۔

وال اسٹریٹ کے مطابق پینٹاگون نے تمام تر آپشنز کے بارے میں معلومات فراہم کیں بشمول ایسے فضائی حملے جو ایرانی اہم تنصیبات پر کئے جائیں ظاہر ہے کہ اس قسم کے حملے کا مقصدعسکری سے زیادہ سیاسی اہداف ہوتے ہیں ۔لیکن اسی دوران اس وقت کے وزیردفاع میٹس سمیت بہت سے اہم ذمہ داروں نے اس قسم کے کسی بھی حملوں کی مخالفت کی اور یوں آخر کار یہ مسئلہ ناقابل عمل ہوکر رہ گیا ۔
لیکن آج میٹس کی جگہ نیا وزیر دفاع آیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ارادے کیا ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایران پر کسی بھی قسم کا ایک حملہ ایک وسیع تصادم کو شروع کرسکتا ہے ۔
اگر ہم ایران کی اہم تنصیبات پر کسی بھی قسم کے فضائی حملوں کو پیش نظررکھیں تو بھی اس کا نتیجہ خطے میں موجود امریکی اڑوں پر ایرانی جوابی میزائل حملوں کی شکل میں نکل آئے گا ۔

ایران کے میزائل پروگرام میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان اہداف کو نشانہ بناسکے تو کیا امریکہ ایک ایسی جنگ کے لئے تیار ہے ؟

مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ امریکی افواج کاجنگی ہدایت نامہ کہتا ہے کہ زمینی کاروائی میں کامیابی کے لئے کم از کم چھ گنازیادہ برتر ی کا موجود ہونا ضرور ی ہے تو کیا امریکی افواج ایک ایسی جنگ کے کسی بھی پہلو میں اس قسم کی برتری رکھتی ہے ؟

ایران کی مسلح قوت کی تعداد 5لاکھ چالیس ہزار سے لیکر 9لاکھ تک ہے ایرانی دفاعی ڈکٹیٹرئن اور نظریے میںبسیج یا رضاکار فورسز بنیادی اور کلیدی کردار رکھتی ہیں جو مسلح بسیج عاشورہ بٹالین مردوں کی فورس تو الزھرا بٹالین خواتین کی فورس کہ جوکم ازکم 400 نفری پر مشتمل ہوتی ہے اور اس وقت ایران میں ایسی ڈھائی ہزار بٹالین موجود ہیں کہ جن کی مجموعی تعداد اس وقت 10لاکھ سے زیادہ ہے ۔

ان رضاکاروں کی نظریاتی اور عسکری تربیت اعلی معیار کی ہوتی ہے جبکہ ایرانی بسجیی سسٹم نے اس وقت 12ملین ایرانیوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ جن کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ملک کا دفاع کرنا ہے ۔
تو ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ چھ گنازیادہ برتری تو دور کی بات دو گنا زیادہ برتری کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ؟

پینٹاگون اس صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے اور اسی لئے ہم ایران پر کسی بھی قسم کی کاروائی کو بعید سمجھتے ہیں ۔لیکن بولٹن کا انداز انتہائی مختلف ہے امریکہ کے اعلی ترین ایک عہد ے پر بیٹھے فرد کا یہ انداز انتہائی حساس اور اپنے عہدے کے برخلاف ہے ۔بولٹن ایران کے سخت مخالفین میں سے ہے جارج بش کے دور سے لیکر اب تک اس کی ایران مخالف سوچ ڈھکی چھپی نہیں ۔

امریکی زرائع ابلاغ مشرق وسطی میں امریکی کردار سمیت ان رویوں کو لیکرامریکی ذمہ داروں میں موجود پریشانی کا اظہار کرتے ہیں سب سے بڑا مسئلہ ٹرمپ اور اس کے اطراف بیٹھے ذمہ داروں کا طرز عمل ہے کہ جس کے بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کب کیا کربیٹھ گے ۔

 

تجزیہ وتحلیل: حسین عابد

متعلقہ مضامین

Back to top button