عراق

نوری مالکی نے وزارت عظمی کے عہدے کے لئے اپنا نام واپس لے لیا

سابق وزیر اعظم نوری المالکی کا کہنا تھا کہ ملک کے سیاسی معاملات میں بیرونی مداخلت کا مقصد قوم کو تقسیم اور اسے اندرونی اختلافات میں الجھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں جب علاقائی اور بیرونی طاقتوں نے عراقیوں کے اتحاد و یکجہتی کو نشانہ بنا رکھا ہے، کسی بھی قسم کی سیاسی دھڑے بندی ملکی مفاد میں نہیں۔ اس درمیان نوری المالکی نے اتوار کو اعلان کردیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کے لئے امیدوار نہیں ہیں – انہوں نے نئی عراقی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل کہا ہے کہ وہ وزارت عظمی کے عہدے کے لئے امیدوار نہیں ہیںحکومت قانون اتحاد کے سربراہ نوری المالکی نے عراقی عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات کے ازالے اور ملک کی تعمیر نو کی خاطر سیاسی مباحثوں اور جلسوں میں پوری صداقت کے ساتھ سے حصہ لیں۔انہوں نے کہا کہ عراقی عوام کا اتحاد ہی، ملک میں استحکام کے قیام اور سماجی و اقتصادی سلامتی کی کنجی نیز تعمیر نو اور خدمات کی فراہمی کا نقطہ آغاز ہے۔عراقی نیشنل کانگریس کے اعلان کے مطابق حکومت سازی کے عمل میں امریکی مداخلت کی وجہ سے سیاسی دھڑے بندیوں میں شدت پیدا ہوئی ہے جس نے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ادھر الفتح نامی عراقی سیاسی اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے بھی اپنے ایک بیان میں خبر دار کیا ہے کہ امریکی مداخلت سے بننے والی کسی بھی حکومت کو سرنگوں کردیا جائے گا۔المیادین ٹیلی ویژن کے مطابق الفتح اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے برٹ مک گورمک کے ساتھ ایک ملاقات میں واضح کیا کہ ہم امریکی مداخلت سے بننے والی کسی بھی حکومت کو، واشنگٹن کا پٹھو سمجھیں گے اور دو ماہ کے اندر اندر اسے سرنگوں کر دیا جائے گا۔عراق میں پارلیمانی انتخابات کی مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک امریکی صدر کے نمائندے مک گورمک مسلسل عراقی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔عراق کی سیاسی جماعتوں نے بارہا اس بات کا اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر کے نمائندے نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔عراق میں حکومت سازی کے عمل میں امریکی مداخلت کے خلاف عراقی شہریوں نے کئی بار بغداد کے مرکزی علاقے گرین زون اور دیگر شہروں میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔ مظاہروں کے دوران عراقی شہریوں نے اپنے ہاتھوں میں ایسے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ملک کے سیاسی گروہوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی صدر کے نمائندے سے ملاقاتیں اور ان کے دباؤ کو قبول کرنا شہیدوں کے خون سے غداری شمار ہوگا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button