مقالہ جات

افغانستان میں پھر سے سعودی عرب کی دلچسپی ۔۔؟

پاکستان کے قومی مفادات دوستوں ہمسائیوں اور اتحادیوں کے درمیان ایران کیخلاف اقدام میں امریکہ کا ساتھ نہیں دینگے ۔طالبان

تقریبا تین ماہ پہلے ٹھیک 27اپریل 2018کے دن اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مندوب عبداللہ المعلمی کی جانب سے ایک اعلان سامنے آیا کہ بین الاقوامی تنازعات میں ان کا ملک ایک مضبوط ثالثی کا کردار ادا کرنے کی قوت رکھتا ہے ۔
المعلمی نے بین الاقوامی ایشو میں سعودی ثالثی کی قوت کے مظہر کے طور پر افغانستان کو بطور نمونہ پیش کیا اور کہا کہ اس کا ملک افغانستان جیسے ایک اہم ملک کے مسائل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی زبردست پوزیشن رکھتا ہے ۔
المعلمی نے اقوام متحدہ سے کہا کہ افغانستان سمیت دیگر تنازعات کے حل کے میدان میں اسے چاہئے کہ سعودی عرب کےاداروں سے رابطے میں رہے ۔
المعلمی کے اس بیان یا اعلان کے پچھے در حقیقت افغان ایشو کے حل کی تلاش میں سعودی عرب کی ڈیپلومیٹک دوری اور تنہائی کا احساس پوشیدہ ہے اس لئے اس اعلان میں سعودی مندوب نے اس بات پر زور دیا کہ وہ افغان ایشو میں طالبان کو مذاکرات کی میز میں لانے پر مجبور کرنے کی پوزیشن رکھتا ہے ۔
تو اصل کہانی کیا ہے ؟
کیا سعودی عرب بین الاقوامی تنازاعات میں مرکزی کردار دا کرنا چاہتا ہے ؟
یا پھر افغانستان کے مذاکراتی عمل میں اپنی پوزیشن کی بحالی چاہتا ہے ؟
یا پھر سعودی عرب کو افغان مذاکراتی عمل میں قطر کا کردار کھٹک رہا ہے کہ جہاں طالبان کا بظاہر غیر سیاسی دفتر قائم ہے ؟
سعودی عرب افغانستان میں امن مذاکرات کو لیکر ماضی میں کسی حدتک امریکہ کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے ۔The Diplomat کے مطابق سعودی عرب طالبان کے بین الاقوامی حامیوں پر دباو بڑھاکرانہیں تنہائی کا شکار کرنے یا پھر مذاکرت کی میز تک کھینچ لانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔
ماضی میں امریکی پلان کے مطابق سعودی عرب کی یہ بھی کوشش رہی ہے کہ طالبان میں تقسیم ایجاد کی جائے اور انہیں اعتدال پسند اور شدت پسند دو گروہ میں بانٹا جائے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کردیا جائےکہ وہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آجائیں ۔
لیکن خطے میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو طالبان کو اس وقت کمزور ہوتے دیکھنا نہیں چاہتیں لیکن وہ یہ ضرورچاہتے ہیں کہ طالبان عسکری اقدامات کے بجائے سیاسی عمل کی جانب متوجہ ہوجائیں ۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کچھ قوتیں طالبان کو داعش کی حریف قوت کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں جو افغانستان میں بڑھتی ہوئی داعش کی قوت کو روکنے میں مددگار بن سکتی ہے ۔
سعودی عرب کی طالبان اور حامیوں پردباوپالیسی ۔
بنیادی طور پر مغربی ایشیا یا مشرق وسطی کی طرح افغانستان کے ایشو میں بھی سعودی عرب کی پالیسی امریکی پالیسی کے زیر اثر ہی کام کرتی ہے لیکن کہیں کہیں وہ اپنے چھوٹے چھوٹے اہداف کی جانب بھی متوجہ رہتے ہیں ۔
ان کے لئے سب سے اہم مسئلہ مسلم ممالک میں اٹھنے والی تحریکوں کی جانب قطر کی توجہ ہے ،سعودی عرب کسی بھی طور اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ قطر ان تحریکوں پر اپنا کنٹرول حتی ان کے ساتھ گہرے روابط رکھے جبکہ قطر اپنے وجود کی بقا کے لئے مذہبی تحریکوں کے ساتھ روابط کو ضروری سمجھتا ہے ۔
سیاست کے بین الاقوامی اکھاڑے میں قطر جیسا چھوٹا مگر امیر ملک سمجھتا ہے کہ یہ تعلقات انتہائی ثمر آور ثابت ہوتے ہیں ۔
لیکن اس خطے میں صرف قطر نہیں ہے جو اس کے سامنے ایک چلینج بن کر کھڑا ہے بلکہ افغانستان کے ہمسائیہ ممالک ایران پاکستان اور روس سے مربوط ریاستیں بھی ہیں جو افغانستان کی شورش اور وہاں موجود شدت پسندی سے بچاو اور اپنے مفادات کے حصول میں مصروف ہیں ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ افغانستان میں سعودی ناظم الاموراور امریکی سفیرنے گذشتہ سال ایران پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ افغانستان میں افغان طالبان کی مدد کرتا ہے لیکن ایران نے اس الزام کو ایک سنگین مزاق قرادیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں 8ایرانی ڈیپلومیٹ کا طالبان کے ہاتھوں قتل اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ طالبان کے ساتھ ہمارے کسی قسم کے تعلقات نہیں ہیں ۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران دونوں افغانستان میں موجود شدت پسندی کی آگ سے خود کو بچانے کے لئے ایسے ضروری اقدامات اٹھاسکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں یہ الزام لگانا آسان ہو کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ دونوں ممالک خاص کر ایران افغانستان میں امریکی موجودگی کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔
اسی طرح سعودی عرب قطر پر بھی الزام لگاتا ہے کہ وہ طالبان کی مددکرتا ہے اس نے قطر کے ساتھ پھر سے تعلقات کی بحالی کی جو شرائط رکھی ہیں ان میں سے ایک شرط دوحہ میں موجود طالبان کے دفتر کی بندش بھی ہے ۔
یہاں تک کہ گذشتہ سال سعودی عرب سے رقم بٹورنے کی خاطر امریکہ کی جانب سے قطر پر بڑھائے جانے والے دبا ومیں اضافہ کرتے ہوئے ٹرمپ نے قطر سے کہا تھا کہ وہ دوحہ میں موجود طالبان کا دفتر بند کرے لیکن ٹرمپ کا بیان کسی قسم کی سنجیدگی نہیں رکھتاتھا کیونکہ دفتر اس وقت بھی کھلا ہوا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب کے گہرے تعلقات کے سبب سعودی عرب نے اندرون خانہ پاکستان پر بھی دباو بڑھانا شروع کردیا ہے اس سلسلے میں The Diplomatکا کہنا ہے کہ ’’سعودی عرب نے شروع میں ترکی اور چین کا ساتھ دیتے ہوئے کوشش کی کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچائے لیکن آخر کار سعودی عرب یہ کہنے لگا کہ پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند گروہ بشمول طالبان کے مقابلے میں مزید کوشش کرے ‘‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خطے میں سعودی عرب کی امریکی پالیسی کا ساتھ دینا اس وقت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سردی کا سبب بنتا جارہا ہے کیونکہ اس خطے میں امریکی پالیسی ہر لحاظ سے پاکستان کے حق میں نہیں ہے اور کئی حوالوں سے اس کے مفادات کو زک پہنچاتی ہے ۔
دوسری جانب امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کو ایک یلغار سمجھتا ہے اور اسے کسی بھی حال میں روکنا اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے جبکہ سعودی عرب امریکی اتحادی ہونے کی حثیت امریکی پالیسی کو ہی فالوں کرے گا جس کا نتیجہ پاکستان جیسے اہم دوست ملک کے ساتھ اس کے تعلقات میں کم ازکم سرد مہری کی شکل میں ہی نکل آئے گا ۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان بھی ایک کڑے امتحان سے گذر رہا ہے جو اپنے درینہ دوستوں ،ہمسائیوں اور اتحادیوں تو دوسری جانب اپنے قومی مفادات کے درمیان کھڑا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان اس وقت پالیسی کی شفٹنگ کے عمل سے گذررہا ہے گرچہ یہ شفٹنگ کئی قسم کے اندرونی روکاوٹوں اور بیرونی چلینجز کے سبب انتہائی سست روی کا شکار ضرور ہے ۔
نئے ممکنہ وزیراعظم عمران خان جو کہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آرہے ہیں کی وکٹری تقریر میں خارجہ سفارتکاری کے حوالےسے بیان شدہ اشاروں کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ان اشاروں سے یہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان خطے میں امریکی پالیسی کو مزید من و عن فالو کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
طالبان میں تفرقے پھیلانے کی پالیسی ۔
سعودی عرب کی جانب سے من جملہ اختیار کی جانے والی حکمت عملیوں میں سے ایک طالبان کے درمیان تفرقے پھیلا کرانہیں دو گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ہے
اعتدال پسند طالبان اور شدت پسند طالبان وہ دو نئی اصطلاحات ہیں جو اس وقت ڈیپلومیٹک حلقوں میں زیر گردش ہیں ۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے ساتھ ہونے والے سعودی مذاکرات کے بعد افغانستان میں ان طالبان کے لئے سیف زون بنانے کی بات ہوئی جو مذاکراتی عمل کے لئے تیار ہوں ۔
سعودی عرب کی جانب ان سیف زونز کی حمایت کی گئی جو یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے ایشو میں اس کا بھی ایک موثر کردار رہے ۔
واضح رہے کہ افغانیوں کے حافظے سے یہ بات ابھی مٹی نہیں کہ اسی کی دہائی میں طالبان اور شدت پسند گروہ بنانے میں سعودی پیٹروفنانس اور وھابی شدت پسند آئیڈیالوجی پھیلانے میں مرکزی کردار رہا ہے
سعودی عرب اپنے وجود کے بہتر اظہار کے لئے ایک چھلانگ لگاتے ہوئے علما اور مذہبی سکالروں کا ایک ایسا چینل بنانے کی کوشش میں کہ جو ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں ۔
افغان اعلی امن کونسل کے شلٹر تلے جدہ میں کی جانے والی علما کانفرنس اس کوشش کی ایک کڑی ہے کہ جس میں اعلان کیا گیا کہ افغانستان میں جنگ مذہبی قوانین کے خلاف ہے ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان سمیت کچھ مسلم ممالک کے علما کا ایک بڑا حلقہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے وہ بیرونی قوتوں کیخلاف شرعی فریضہ اور جہاد ہے ۔
ساتھ ساتھ یہ اس نام نہاد جہادی مہم جوئی کے وقت دیے جانے والے فتووں کے بھی خلاف ہے جو اسی کی دہائی میں سویت یونین کیخلاف بعنوان قابض و جارح افواج کے دیے گئے ۔
تازہ ترین صورتحال
گذشتہ چند سالوں سے افغانستان میں طالبان دہشتگردوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لئے امریکہ کی جانب سے مسلسل کوشش دیکھائی دے رہی ہے
امریکی میڈیا اب طالبان کو’’ دہشتگرد یا شدت پسند گروہ ‘‘کہنے کے بجائے’’ اسلام پسند باغی گروپ ‘‘جیسے القابات سے نوازنے لگا ہے ۔
حال ہی میں ایک بار پھر طالبان نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے أفغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے گذشتہ ہفتے قطر میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے مطابق طالبان کے ایک سینیر عہدے دار نے ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق بھی کرلی ہے
ریڈیو کا کہنا ہے کہ ’’باغی عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابتدائی مذاکرات میں توجہ صرف مستقبل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں اور ملاقاتوں کے لیے زمین ہموار کرنے پر مرکوز رہی۔
واضح رہے کہ سن 2015 میں پاکستان میںبھی طالبان اور افغان عہدے داروں کے ساتھ اجلاس ایک اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس میں امریکہ اور چین نے مبصر کے طور پر شرکت کی تھی۔
اس کے علاوہ عید الفطر کی مناسبت سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تین روز کی عارضی فائر بندی جسے ایک اہم پیش رفت کہا جاتا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اب عید قربانی کے دن بھی اسی طرح کی فائر بندی کا سوچا جارہا ہے ۔
دوسری جانب خبریں آرہی ہیں کہ برطانیہ کے مزید 500 فوج افغانستان بھیجے جارہے ہیں یوں افغانستان میں موجود برطانوی فوجیوں کی تعدادبڑھ کر 1160 ہو جائے گی جبکہ افغانستان میں موجود غیر ملکی مجموعی افواج کی تعداد 15000سے زائد بتائی جاتی ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق سن 2001سے اب تک افغانستان میں برطانیہ کے 500کے قریب فوجی مارے گئے ہیں ۔
اسی دوران بعض زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کااگلا دورسعودی عرب، ترکی یا دوحہ میں ہوسکتا ہے ۔
براہ راست مذاکرات کے لئے طالبان کے شرائط ۔
طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں کسی بھی تیسرے فریق کی موجودگی کو ناقابل قبول قراردیا ہے اور امریکہ کو تین سال کے اندر اندر افغانستان چھوڑنا ہوگا ،طالبان مخالف کسی بھی گروہ جیسے داعش وغیر کو کسی بھی قسم کی مدد نہیں ملنی چاہیے ،ایران اور امریکہ کے اختلافات کے درمیان طالبان لاتعلق رہے گے ۔
زرائع ابلاغ خاص کرپاکستان سے چھپنے والے اردو زبان کے امت اخبار کے مطابق امریکہ طالبان سے ایران کیخلاف تعاون کا خواہاں ہے جبکہ طالبان اس مسئلے میں بے طرف رہنا چاہتے ہیں ۔
طالبان نے دیگر شرائط میں اپنے قیدیوں خاص کر انس حقانی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان مذاکرات کے بارے میں حقانی نیٹ ورک کے نام سے مشہور طالبان کا دھڑاشدید قسم کے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button