داعش اینٹی پاکستان، اینٹی وفاق ، اینٹی آرمی،اینٹی شیعہ
حالیہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے دہشتگردانہ حملوں نے اس بات کو مزید تقویت دی ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق سن 2018میں دہشتگردی کے چھوٹے بڑے 150 سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں
ان دہشتگردانہ واقعات میں سے زیادہ تر کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا کہ جنہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جبکہ دیگر دہشتگرد گروہ بشمول داعش نے بھی کچھ واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں جو چیز انتہائی قابل توجہ طلب ہے وہ دہشتگردی کا جغرافیہ ہے کہ جس میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔
اسی طرح دوسری بات دہشتگردوں کے اہداف بھی ہیں کہ جس بدستور اسی طرح جاری ہیں ۔
داعش نے گذشتہ ڈھائی سال میں ایک درجن سے زائد حملے پاکستان میں کئے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے ت 9انتہائی خونین حملے بلوچستان میں ہوئے ہیں ۔
مستونگ مولانا عبدالغفور کے قافلے پر حملے میں مجموعی طور پر 91افراد مارے گئے جبکہ حالیہ دھماکے میں ایک اندازے کے مطابق 170سے زائد یا بعض زرائع کے مطابق 200سے زائد افراد مارے گئے ہیں ۔اسی طرح کوئٹہ میں داعشی دہشتگردوں نے 5حملے کئے جس میں چار حملے عیسائی یا مسیحی برداری پر کئے گئے ۔
اہم سوال یہ ہے کہ مستونگ جو کہ صوبائی دارالحکومت سے صرف 50کلومیٹر دور ہے کیسے اس قدر دہشتگردی کا نشانہ بنتا جارہا ہے۔
معروف تجزیہ نگار امتیاز کل کا کہنا ہے کہ ’’کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا نام لیا جائے ، صوبائی دارالحکومت سے 50کلو میٹر دور واقع ضلع مستونگ میں اس کی موجودگی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔
بدنام زمانہ جرائم پیشہ عمران رئیسانی عرف چھوٹا عمر جو ان دنوں زیر حراست ہے ، اور سلمان بادینی جو باغی بھی ہے ، دونوں کا تعلق مستونگ سے ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ایک کرنل کے قتل، جے یو آئی کے رہنما مولانا حیدری پر حملے کے علاوہ کئی وارداتوں میں ملوث تھے ۔ کوئٹہ کے نواحی گاؤں الماس کلے میں اپنے ٹھکانے پر چھاپے میں بادینی مارا گیا تھا۔ اس چھاپے کے دوران اس نے اندر سے فائرنگ کی جس میں کرنل سمیت کئی سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو ئے‘‘
امتیاز کل داعش کےایجنڈو ں کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’داعش نے جن حملوں کی ذمہ داری قبول کی،ان کے جائزے سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس تنظیم کی ان قوتوں سے ہم آہنگی ہے جوکہ اینٹی پاکستان، اینٹی وفاق ، اینٹی شیعہ، اینٹی آرمی اور ہر اس شخص کے خلاف ہیں جنہیں وہ فوج اور وفاق کا پارٹنر یا حامی خیال کرتے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ سراج رئیسانی ایسے ہی رہنماؤں میں سے ایک تھے ، جوکہ وفاق پاکستان کی حامی قوتوں کی کھل کر حمایت کر رہے تھے ‘‘
افغانستان اور بھارت کے درمیان موجود گڑ ھ جوڑ اور بھارت کی افغانستان کو پاکستان کیخلاف ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنا جیسے مسائل سے بھی بلوچستان سخت متاثرہے ۔
داعش کا مرکز اس وقت گرچہ افغانستان میں ہے لیکن داعش دہشتگردوں میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان کی مختلف دہشتگرد تنظیموں سے ہے کہ جن میں تحریک طالبان پاکستان،لشکر جھنوی،جماعت الاحرار ،جیش محمد سرفہرست بتائے جاتے ہیں ۔