مقالہ جات

تکفیریت کا سیاسی ورژن

اسٹیبلشمنٹ کسی بھی ملک کی اس اشرافیہ کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ میں ملکی امور کی اصل طاقت اور باگ دوڑ ہوتی ہے اور وہ اپنی فہم و فراست اور ترجیحات کے مطابق ملکی و قومی مفادات پہ مبنی پالیسی بناتی اور اس پہ عملدرآمد کرتی اور کرواتی ہے۔

حقیقی جمہوریتوں اور فلاحی ریاستوں میں آئیڈیلی یہ کردار سول بیوروکریسی کا بنتا ہے کہ وہ جمہوری اداروں کے تابع رہ کر یہ ذمہ داری ادا کرے ، لیکن عموما دیکھا گیا ہے کہ بظاہر مہذب مغربی جمہوریتوں میں بھی طاقت کے اس توازن میں عسکری اداروں کا عمل دخل شامل ہے اور ملکی سلامتی کی داخلی پالیسیوں میں فوجی اشرافیہ اپنا ایک خاص اثرورسوخ رکھتی ہے۔

وطن عزیز ایک خالص عوامی و جمہوری جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آیا، قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کے مطابق بھی اس ملک کا پائیدار مستقبل بھی جمہوری اقدار سے ہی وابستہ تھا جہاں اصل طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہوں اسی لیے وطن عزیز کا آئینی نام ” اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا گیا۔

بدقسمتی سے قائد اعظم کی وفات کے فوری بعد ملک کے مقتدر اداروں میں طاقت کے حصول اور بالادستی کا کھیل شروع ہوا جس کے نتیجے میں بالآخر اکتوبر 1958 میں اسکندر مرزا کے لگائے گئے مارشل لاء کے نتیجے میں بوٹوں کی دھمک کے ساتھ جنرل محمد ایوب خان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گیے اور اس طرح افواج پاکستان اور اس کے ادارے ملکی طاقت کا مظہر قرار پائے، عوامی رائے پس پشت چلی گئی جس کا حتمی نتیجہ 1971 میں وطن عزیز کے دو لخت ہونے اور بنگلہ دیش کی شکل میں نکلا۔
جنرل ایوب، جنرل یحیٰی، ضیاالحق، کے براہ راست طویل مارشل لاء، اس کے بعد سیاسی عمل میں فوجی اداروں کی براہ راست دخل اندازی جس کی مثال آئ جے ائ کی تشکیل میں آئ ایس ائ کا کردار، پیسوں کی تقسیم اور اس سلسلہ میں اصغر خان کیس ہے جو اس وقت بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے۔
1988 سے 1999 تک کے بظاہر جمہوری دور کے بعد پھر مشرف ایمرجنسی اور 2008 کے بعد سے اب تک کے حکومتی معاملات سے یہ بات واضح محسوس کی جا سکتی ہے کہ یہاں طاقت کا سرچشمہ جی ایچ کیو ہی رہا ہے اور جمہوری حکومتیں بنیادی فیصلہ جات کرنے میں آزاد نہی ہیں۔ طاقت کے توازن اور حصول کی یہ جنگ کبھی "سول سپرامیسی” اور کبھی "ملکی سلامتی” کے نام پہ جاری و ساری ہے جس میں پلڑا البتہ ہمیشہ عسکری اداروں کا ہی بھاری رہا ہے ۔

ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وطن عزیز کو ایک انتہائ خطرناک کھیل میں الجھانے کا آغاز ضیا الحق کے مارشل لاء دور میں ہوا جب جہاد افغانستان کے نام پر امریکی و برطانوی سرمایہ کے زور اور ڈالروں اور ریالوں کی جھنکار میں ایک خاص مذہبی نظریہ رکھنے والے مزہبی جنونیوں کے لشکر تیار کئے گئے، دولت کی ریل پیل نے مدرسوں کے سائیکل سواروں کو پراڈو اور بڑی بڑی گاڑیوں کا مالک اور باڈی گارڈز کی فوج ظفر موج کا کروفر عطا کیا، کیونکہ اس خاص مکتب کے افراد افغانستان میں روس کے خلاف امریکی مفادات کی جنگ بھرپور جانفشانی سے لڑ کر فتوحات حاصل کررہے تھے اور ان کے مربی دینی قائدین اور جماعتیں اس کے عوض بھاری مراعات سمیٹ رہی تھیں، اسی دوران سعودی عرب کی بادشاہت پوری دنیا میں امرہکی خواہش پر دین کے اس متشدد برانڈ کو پھیلانے کے ایجنڈے پہ مامور تھی، یہ وہ بات ہے جس کا برملا اظہار سعودی ولی عہد نے چند ماہ قبل امریکی دورے کے دوران کیا۔ امریکی پسندیدہ مذہب کے پوری دنیا میں منظم پھیلاؤ کا نتیجہ آج افغانستان، شام، عراق، یمن، صومالیہ، نائجیریا، سوڈان حتیٰ پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں کافر کافر کے نعروں میں تکفیریوں کے جتھے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور مستقل نا امنی اب دنیا کا مقدر ہے۔

امریکہ، برطانیہ اور سعوددی عرب کی جانب سے پوری دنیا میں جہاں اس زہر کو پھیلایا گیا وہیں اس کی بھرپور سرپرستی بھی کی گئ، اور بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں حکومتیں چاہتے ہوئے بھی ان دہشتگردوں کے خلاف کوئ قدم اٹھانے سے قاصر رہیں۔ اس کی ایک مثال بدنام زمانہ دہشتگرد ہے جس نے اعلانیہ سینکڑوں بیگناہ افراد کا قتل کیا، ٹانگیں اور پاوؤں اعلی عدلیہ کے ججز کی طرف کر کے عدالتی سماعتیں سنیں، قتل کے اعترافات کئے لیکن اس سب کے باوجود عدالتوں نے سو سے زیادہ مقدمات میں ملوث بدنام زمانہ دہشت گرد کو ناصرف باعزت بری کیا بلکہ اس پورے عرصہ میں پنجاب حکومت باقاعدہ اس کے گھر وظیفہ دیتی رہی اور جب دھشتگردوں کے ایک گروہ نے راولپنڈی جی ایچ کیو پہ حملہ کر کے بہت سے اعلی افسران کو یرغمال بنا لیا تو اسی دہشتگرد اور اس کے لیڈر، جو کہ موجودہ تکفیری تنظیم کا سربراہ ہے اور ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے، کو جیل سے ماورائے قانون نکال کر آرمی ہیلی کاپٹرکے زریعے جی ایچ کیو منتقل کیا گیا تاکہ دہشتگردوں سے مذاکرات کر کے یہاں سے ان کا قبضہ ختم اور یرغمالیوں کو بازیاب کروایا جا سکے۔
ڈیرہ اسمعیل خان جیل توڑنے کا واقعہ بھی اپنی نوعیت کا عجیب وغریب واقعہ تھا کہ جس میں درجنوں دہشتگرد تمام ناکے اور چوکیاں کراس کرتے آئے، جیل توڑا اور اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے جن کا آج تک پتا نہی چلا۔

دہشتگردوں کے کچھ گروہوں کی سرپرستی اور کچھ کے خلاف جنگ کا گھناؤنا کھیل اس وقت عالمی سطح پہ کھیلا جا رہا ہے، عالمی طاقتوں اور ریاستوں کے نزدیک دہشتگرد صرف وہی ہے جو ان کے مفادات کے خلاف ہے، وگرنہ کوئ کتنا بھی ظالم، خونخوار ہو اگر ان کے مقاصد کو پورا اور مفادات کا تحفظ کررہا یے تو اس کی بھرپور سرپرستی کی جاتی ہے۔ البتہ جس سے مطلب کا کام لے لیا گیا ہو یا جو کوئ اپنے آقاؤں کو ہی آنکھیں دکھانے لگے اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پہ راستے سے ہٹانے میں بھی دیر نہی لگائ جاتی جیسا کہ اسی بدنام زمانہ دہشتگرد کو بعد میں پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔

دہشتگردی کے عالمی ایجنڈے اور ان کے سرپرستوں کی جانب سے پوری دنیا میں اب انہیں سیاسی کردار بھی دیا جا رہا ہے، یعنی پہلے ان کے زریعے ہزاروں بےگناہ افراد کا قتل عام کروا کے ان کی دھاک بٹھائی جاتی ہے پھر اس بنیاد پہ لوکل حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ انہی سیاسی اور حکومت سازی کے عمل میں شریک کیا جائے تاکہ یہ دہشتگرد سافٹ امیج کے ساتھ ریاستی سطح پہ اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں، عالمی سطح پہ اس کی مثال افغانستان اور شام ہیں جہاں انہی قاتلوں اور خونخواروں کو حکومت سازی میں شامل کرنے کیلئےایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے جو ان ممالک کو تباہ کرنے کے زمہ دار ہیں۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال اس وقت پاکستان کے آنے والے الیکشنز ک نظر آ رہی ہے، حالات پہ نظر رکھنے والے افراد جانتے ہیں اور بڑی آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک منظم پلاننگ اور منصوبہ بندی سے تکفیری دہشتگردوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے کا بندوبست کیا جارہا ہے، مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ جس شخص کے نام پہ بدنام زمانہ دہشتگرد گروہ عام عوام اور سکیورٹی کے اداروں کو سرعام نشانہ بنا رہا ہے یعنی لشکر جھنگوی، اسی شخص کا فرزند جو خود بھی ایسے ہی متشدد اور تکفیری نظریات رکھتا ہے وہ پنجاب اسمبلی کا ممبر رہ چکا ہے ، اسی طرح وہ کالعدم جماعت جس نے اس ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی، کافر کافر کے نعروں میں مخالفین کو قتل کرنے کے اعلانیہ فتوے دیے اور جن کی گردن پہ ہزاروں بےگناہ پاکستانیوں کا خون ہے اسے راتوں رات کالعدم کے خانہ سے نکال کر اور اس کے سربراہ کا نام فورتھ شیڈیول سے ختم کر کے اسے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئ ہے۔ کراچی میں تکفیریت پھیلا کر سینکڑوں افراد کو موت کی نیند سلانے والوں اور کوئٹہ میں معصوم ہزارہ اور سیٹلرز کو قتل کر کے سربازار سینچری بنانے کے ترانے چلانے والے بھی اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اہم بات ہے کہ ان الیکشنز میں کاغذات نامزدگی داخل کروانے اور ان کی جانچ ہڑتال کے مرحلہ میں جہاں ہر اہم سیاسی شخصیت کو کٹھن اور کڑے عمل سے گزرنا ہڑا، بہت سوں کے کاغذات چیلنج یا مسترد ہوئے، کسی کو ایپلٹ بنچ، ہائیکورٹ حتی سپریم کورٹ تک جا کر الیکشن لڑنے کی اجازت ملی، وہیں ان دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں نے نہایت آسانی سے اس مرحلہ کو طے کیا، تمام کے کاغذات نہایت آسانی سے قبول ہوئے اور اگر کسی کے خلاف کوئ اپیل کی بھی گئ تو اسے فوراً خارج کر کے اہلیت کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا گیا۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس بدنام زمانہ تنظیم اور اس کے سربراہ سے پابندیوں کو اٹھانے کا فیصلہ اسی دن کیا گیا جس دن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF نے پاکستان کو دہشتگردوں کی سپورٹ کے حوالے سے گرے لسٹ میں شامل کیا، یعنی اپنے تزویراتی اثاثوں کو محفوظ بنانے کے کھیل میں ہمیں اس بات کی بھی قطعا کوئ پرواہ نہی کہ دنیا ہمارے اس عمل پہ کیا ردعمل دے رہی ہے اور ان سانپوں کو پالنے اور نیا سیاسی کردار دینےکے ملکی سلامتی پہ کیا بھیانک نتائج مرتب ہوں گے۔

ایک طرف جہاں یہ دہشتگرد براہ راست اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے افراد مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں بھی گھس چکے ہیں اور وہ ان سیاسی جماعتوں کے کور اور ٹکٹس پر بھی اسمبلیوں میں پہنچنے کیلیئے سرگرم ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ایک بڑی سیاسی جماعت جو ملک کی حکمران بنی اس نے گجرات سے ایسے شخص کو ٹکٹ دے کر قومی اسمبلی میں پہنچایا جو ایک مسلمہ دہشتگرد گروہ کا کارندہ تھا اور جس پہ دہشتگردی اور قتل کے باقاعدہ مقدمات تھے، عدالت نے جسے سزائے موت سنائ لیکن کوئ بھی اس کا بال بیکا نہ کر سکا اور اس نے اسمبلی کی مدت پوری کی، اسی طرح تمام مین سٹریم سیاسی ہارٹیوں کا ان دہشتگردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا بھی اظہر من الشمس ہے جس کی ایک تازہ ترین مثال کے پی کے کی حکومت کا ابو الطالبان سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ کو 57 کروڑ کی خطیر گرانٹ اور سینیٹر شپ کی رشوت شامل ہے۔

جگر پیٹنے کو دل کرتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کے قتل عام کو میڈیا پہ قبول کرنے والا احسان اللہ احسان اور ایسٹر کے موقع پر لاہور چرچ میں پھٹنے سے ایک رات قبل گرفتار ہونے والی نورین لغاری کو سکیورٹی کے ان اداروں کی حفاظتی تحویل میں دیکھتے ہیں جن کا کام ان دہشتگردوں کا قلع قمع کرنا تھا۔

ایسی صورتحال میں محب وطن عناصر کے پاس دو راستے ہی بچتےہیں، یا تو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر آنے والے خطرے سے اپنے آپ کو بےپرواہ کرلیں اور پھر اس کے نتائج کو بھگتیں یا پھر آئینی اور قانونی طریقہ سے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں اور عوامی طاقت سے ریاست کو مجبور کریں کہ وہ تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر مظلوموں کو تحفظ دے اور ظالموں کی سرپرستی سے باز رہے۔ تمام محب وطن سیاسی و مذہبی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس میں اجتماعی قومی شعور پیدا کریں اور انہیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ووٹ کی پرچی کے زریعے اظہار رائے اور اپنی طاقت کے استعمال کی طرف متوجہ کریں، مظلوموں کو ظالموں کے مقابل منظم کریں، تاکہ ملک کے اعلی ترین اداروں میں ان کی ملک و دین دشمن ناپاک سوچ اور وجود کو قانونی اور عوامی طریقہ سے روکا اور انہیں تنہا کیا جا سکے۔
ولی فقیہہ کے مطابق ووٹ کا استعمال اگر فساد کو روکنے، کم کرنے اور معاشرے میں اصلاح احوال کیلئے ہے تو پھر یہ ‘واجب’ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں ووٹ کے پراسس سے دور ہونا یا کسی کو دور کرنا ایک لحاظ سے دہشتگردوں کو اسمبلیوں میں پہچانے کی سہولت کاری ثابت ہو گا جس کے نتائج محب وطن اور امن پسند عوام اور ان کی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button