مقالہ جات

ووٹ کی اہمیت

دین کے نقطہ نظر کو سامنے رکھیں تو ووٹ کی سب سے پہلی حیثیت یہ ہے کہ یہ ملک و ملت کی طرف سے ایک بڑی بھاری امانت ہے اور کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملک و ملت کے اجتماعی فائدے کو چھوڑ کر محض اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس امانت کو استعمال میں لائے۔ یہاں ہمارے حلقوں میں الیکشن کے قریب تو سیاسی اکابرین کا تانتا بندھ جاتا ہے ووٹ کے حصول کے لیے ہر قسم کا حربہ تیار کرتے ہیں بلند و بانگ تقریریں وعدوں اور دعوے داریوں کی لمبی فہرست سادہ لوح عوام کے آگے پیش کی جاتی ہے۔

سبز باغ جنت النظیر کی سیر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے
کا دعوی وغیرہ وغیرہ ان سب باتوں سے قطع نظر ووٹ دیتے وقت یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس شخص کو آپ ووٹ دینے جا رہے ہو وہ اپنی رائے پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں یا پھر چرب زبان، باتونی، حکومتی قائدین کا قصیدہ خواں (پٹھو) محض باتوں کو فنکارانہ رنگ دے کے پیش کرنے والا تو نہیں ؟عوامی مسائل کے بارے میں گونگا اور بہرہ نہ ہو- واقعتا ایک متحرک شخص جس کا دل ملک و قوم کے لیے دھڑکتا ہو ہمدرد درد آشنا معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کے گہرے جذبات اور عمیق نظر رکھتا ہو۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہو
اور دوسروں کو قائل بھی کر سکتا ہو اور اگر اس میں یہ صلاحیتیں موجود نہ ہوں تو پھر ایسے آدمی کو اپنی قوم کا وکیل بنانا چور کو چوکیدار بنانے کے مترادف ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اپنا ووٹ اور اپنی رائے ایک غلط کار، حق سے بے بہرہ آدمی کے حق میں نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں بیلٹ بکس تو نہ تھے کہ ان میں با قاعدہ پرچیاں ڈالی جاتیں لیکن بیعت کا طریقہ ضرور رائج تھا۔ خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا مطلب یہی تھا کہ ہاتھ دینے والے کا ووٹ خلیفہ کے حق میں جا رہا ہے۔
حسین ابن علی علیہ السلام کو یہ منظور نہ تھا کہ وہ ایک نا اہل کم ظرف جہل کل، باطل پرست آدمی کے لیے اپنا ووٹ استعمال کریں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دشت کربلا میں اپنے جاں نثار احباب و اعزہ کے ہمراہ بے دردی سے شہید کر دئیے گئے اور امت محمدی کے لیے رہتی دنیا تک یہ سبق چھوڑ گئے کہ
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

سچائی کے رستے میں حسین علیہ السلام اور ان کے 72 ساتھیوں کے ووٹ یزید کے ہزاروں لاکھوں حامی ووٹوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button