مقالہ جات

جارحیت کا احساس اور دفاع کا جذبہ

یمن کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جس پر ہر حملہ آو ر بیرونی قوت ہمیشہ شکست کھاکر پسپا ہوگئی ہے
ماضی میں برطانیہ اپنی عظیم سلطنت کے باوجود عدن پورٹ سے آگے بڑھنے کی جرات نہ کرسکا جبکہ مصر عرب دنیا میں سب سے بہترین فوج رکھنے کے باوجود بدترین نقصانات اٹھاکر یمن سے واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوا
دلچسب بات یہ ہے کہ برطانیہ اور مصر دونوں حملوں کے وقت سعودی عرب پر حاکم خاندان آل سعود کا کردار کسی نہ کسی شکل میں موجود رہاہے
برطانیہ کی مدد سے پورے حجاز پر قبضے کے دوران بھی جس وقت فوجیں یک بعد دیگر فتوحات کے یمن کی سرحد کے قریب پہنچی تو سعودی بادشاہ نے فوجوں کو یمن کے دلدل میں کودنے سے روک دیا اور اپنی سلطنت کی سرحدوں کی انتہا وہیں پر کردی ۔
اس طرح آج سے تقریبا پچاس سے پہلے مصر یمن کے حوثی قبائل کیخلاف میدان میں فوج اتار رہا تو اس وقت آل سعود خاندان مصر کیخلاف حوثیوں کی حمایت کررہا تھا اور مصری افواج کو جارح افواج کہتا تھا ۔
آج بھی سعودی اتحاد کو یمن پر چڑھائی کرنے کی کوشش کا اب چوتھا سال چل رہا ہے تو اسے زمین میں کسی قسم کی کوئی کامیابی نہیں مل پارہی ہے ،ہرہفتے بکسوں میں بند اس کی یا اتحادی افواج کی لاشیں یمن سے موصول ہوتی ہیں ۔
دنیا اس وقت فٹبال کے عالمی کپ کو لیکر مصروف ہے ،فٹبال کو دنیا بھر کی طرح عرب دنیا میںبھی جنون کی حدتک پسند کیا جاتاہے لہذا سعودی اتحاد نے الحدیدہ جیسے اہم شہر پر قبضے کے لئے اس وقت کو چنا تاکہ دنیا کی نظریں اس ایشو کی جانب کم ہی رہیں ۔
چند ملکی افواج کے باوجود الحدیدہ میں اب تک مسلسل ناکامی کا سامنا ہے اور اہل یمن سعودی افواج کی لاشیں بکسوں میں روانہ کررہے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اہل یمن تو اپنی سرزمین کے دفاع کے جذبے سے لڑ رہے ہیں لیکن حملہ آور سعودی و اماراتی نیز کرایے کی افواج کے پچھے کونساسا جذبہ موجود ہے جو انہیں محاذ جنگ میں مزاحمت اور قربانی کی جانب لے جاسکتا ہے ؟
دنیا بھر میں ہمیشہ حملہ آوروں کو آخر کار شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے خواہ وہ ویتنام کی جنگ ہو افغانستان ہو یا پھر عراق ۔۔
الف:حملہ آور فوجیں کس قسم کا کوئی جذبہ نہیں رکھتیں بلکہ وہ نفسیاتی دباو کا شکار ہوتی ہیں ،انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہی ہیں اس کا کوئی مطلب نہیں ہے سوائے آڈرز فالو کرنے کے ۔
ب:سعودی عرب اور امارات پر اس جنگ کے آغاز سے ملک کے اندر دبی دبی تو ملک سے باہر کھلے لفظوں کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے یہاں تک کہ ان خیرخواہوں جیسے امریکہ اور برطانیہ نے بھی اس جنگ میں کودنے سے منع کیا تھا ،گرچہ اس وقت انہیں چوبیس گھنٹہ اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں کی کھپت بڑھانے کا اچھا موقع میسر آیا ہے لہذا وہ اب مزید اسے شہ ضرور دے رہے ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ اس دلدل میں جو دوبے گا وہ سعودی عرب اور امارات ہونگے نہ کہ برطانیہ،فرانس یا امریکہ ۔۔
ج:سعودی عرب کا دعوا ہے کہ وہ یمن کو حوثی گروہ سے نجات دلانا چاہتا ہے اور اہل یمن ان کے ساتھ ہیں اگر سعودی عرب یمنی عوام میں اس قدر پذیرائی رکھتا ہوتا تو اسے کرایے کی فوج بلانے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے ،آخر اہل یمن اس گروہ کیخلاف میدان میں کیوں نہیں کودتے ؟اور عوام کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ؟
د:تین سال سے اہل یمن کی مزاحمت اور زبردست قسم کی جوابی کاراوئیوںکے اسباب کیا ہیں ؟کیا یمن کا جذبہ نہیں بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی ملک میں غاصب اور قابض جارح افواج و قوتوں کیخلاف ہوتا ہے ؟
یہ بات واضح ہے کہ ہرگذرتا دن سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھاس دلدل میں دھنستا جارہا ہے عرب میڈیا میں لیکس ہونے والی خبروں کے مطابق یہ امارات ہے جو سعودی عرب کو اس دلدل سے نکلنے نہیں دے رہا ۔۔
کہا جاتا ہے کہ بن زائد دوستی بن سلمان پر اس قدر حاوی ہے کہ بن سلمان اسے نہ نہیں کہہ سکتا دوسرے الفاظ میں یہ بن زائد ہے جو بن سلمان کے ولی عہدی اور تخت شاہی تک رسائی دلانے میںمقامی علاقائی و عالمی سطح پر فعال رہا ہے ۔
میدان جنگ کی صورتحال واضح کرتی ہے کہ یمن کی جنگ کا دائرہ بڑھنے جارہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ جنگ اب پھیلنے جارہی ہے ۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button