مقالہ جات

یوم القدس اور ایران کی پراکسی وار

تحریر: عرفان علی

اقوام عالم اور خاص طور پر مسلمان اور عرب اقوام اگر اپنی تاریخ اور مختلف معاملات پر اپنے قومی بزرگان کے موقف سے بے خبر نہ ہوتیں تو آج یہ جھوٹ دنیا بھر میں پڑھے لکھے روشن خیال اور معتدل خواص اور خاص طور بین الاقوامی تعلقات کے اساتذہ اور شاگردوں میں ایک مفروضے کے طور پر اپنا وجود باقی نہ رکھ پاتا۔ جی ہاں! یہی جھوٹ اور یہی جھوٹا مفروضہ کہ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ فلسطین بشمول مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں اور ان کے حامی ایران کی نیابتی جنگ یا پراکسی وار (Proxy War) لڑ رہے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان سے لے کر عرب ممالک تک حتیٰ کہ سعودی عرب سے لے کر مصر تک، تمام ممالک کی جوان نسل کو اپنی تاریخ سے رجوع کرنا چاہئے۔ جب وہ اپنی تاریخ پڑھیں گے، جب وہ اپنے بانیان کا یا دیگر قومی رہنماؤں کا بیانیہ پڑھیں گے تو انہیں شرمندگی ہوگی اور وہ سبھی میری طرح اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کوئی بھی ایران کی نیابتی جنگ یا پراکسی وار نہیں لڑ رہا بلکہ ایران خود ان نالائق و نااہل سوئی ہوئی قوموں کی جنگ لڑ رہا ہے، ورنہ نیشن اسٹیٹ پر مشتمل اس مادہ پرست دنیا میں مسئلہ فلسطین کا ایران سے کیا تعلق؟ معذرت کے ساتھ ذرا اس زاویے سے بھی دیکھیں کہ ایران تو عجمی ملک ہے، فلسطین تو عرب مسئلہ ہے! ایران تو شیعہ ملک ہے، فلسطین تو سنی مسئلہ ہے! جیسا کہ اقوام عالم میں اس نوعیت کی باتیں بھی پھیلا دی گئیں ہیں۔ چونکہ فلسطین کے غاصبوں اور ان کے اعلانیہ و خفیہ اتحادیوں نے دانستہ طور اور نادانوں نے نادانستہ طور یہ مفروضے اور یہ جھوٹ پھیلائے ہیں، تو مجھ حقیر کی نظر میں یہ پتھر جس سمت سے پھینکا گیا، اسے اسی سمت میں لوٹانے کی ضرورت ہے۔

بائیس عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ (جامعۃ الدول العربیہ) کی تاریخ پڑھیں کہ اس نے اردن کی مخالفت کے باوجود یاسر عرفات کو فلسطینیوں کا نمائندہ اور قائد تسلیم کیا، کیا یاسر عرفات آزادی فلسطین کے لئے مسلح جدوجہد نہیں کر رہے تھے۔؟ یہ عرب لیگ ہی تھی کہ جب مصر کے صدر انور سادات نے جعلی ریاست اسرائیل سے معاہدہ کرکے اسے تسلیم کر لیا تو اس کی رکنیت معطل کرکے عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا تھا۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس تو قائم ہی اس وجہ سے ہوئی کہ 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کا سانحہ پیش آیا تھا اور اس تنظیم یعنی او آئی سی کا مستقل صدر دفتر بیت المقدس میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جبکہ عارضی ہیڈکوارٹر سعودی شہر جدہ میں ہوا۔ 1970ء میں سعودیہ کی تنظیم موتمر عالم اسلامی نے پاکستان میں مشہور زمانہ دستاویز بعنوان یہودی یا صہیونی بزرگان کے پروٹوکولز کتابی شکل میں شایع کروائے تھے تو اس میں جعلی ریاست اسرائیل کی سرحدوں کو نیل تا فرات دکھایا گیا تھا۔ یہ کل کے عرب حکمران تھے۔ ان کی نظر میں فلسطین کا مسئلہ اہمیت رکھا کرتا تھا اور اس کے لئے عرب ملکوں نے جنگیں بھی لڑیں۔ اگر آج یہ عرب خود اپنے ہی نصب العین سے منحرف ہوگئے تو اس میں ایران، حزب اللہ لبنان، حماس، حزب جہاد اسلامی فلسطین، حرکت انصار اللہ یمن یا شام کی حکومت کا کیا قصور؟!

پاکستان ہی کی مثال لے لیں۔ جب پاکستان بنا بھی نہیں تھا، تب بھی یہاں مولانا محمد علی جوہر، محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے مسلمان قائدین ہوا کرتے تھے۔ کبھی ہمارے موجودہ تعلیم یافتہ خواتین حضرات ان بزرگان کے موقف برائے فلسطین سے بھی آگاہی حاصل کریں۔ حتیٰ کہ بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی جن کی یہودیوں سے دوستیاں تھیں اور وہ انہیں مسیحی ممالک میں مظلوم بھی سمجھتے تھے، لیکن انہوں نے بھی برملا کہا کہ یہ دوستی انہیں انصاف سے دور نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح انگلینڈ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا ہے، بالکل اسی طرح فلسطین بھی عربوں کا ہے اور یہودی ایسا کیوں نہیں کر لیتے کہ وہ جس ملک میں پیدا ہوئے اور جہاں زندگی گذارتے ہیں، اسی کو اپنا وطن اپنا گھر تسلیم کرلیں، جیسا کہ پوری دنیا میں دیگر قومیتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتداب (یعنی مینڈیٹ) وغیرہ کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں، کیونکہ وہ پچھلی جنگ (یعنی جنگ عظیم اول) کے نتیجے میں نافذ ہوئے تھے۔ طول تاریخ میں بھارت مسئلہ فلسطین پر عرب موقف ہی کی تائید کرتا آیا تھا اور یاسر عرفات کو بھارت میں بھی فلسطینی بابائے قوم کا درجہ حاصل تھا، لیکن آج بھارت کے حکمران کھل کر جعلی ریاست اسرائیل کی گود میں جابیٹھے ہیں۔(1)

قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ، اس جماعت کے قائدین خاص طور علامہ اقبال اور قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بانی پاکستان محمد علی جناح کا واضح موقف رہا کہ فلسطین عربوں کی ریاست ہے اور اس پر کوئی یہودی ریاست قائم نہیں کی جاسکتی۔ حتیٰ کہ اس خطے کے دیگر مسلمان ممالک پر برطانوی سامراج اور اس کے اتحادیوں کے قبضے کے خلاف 24، 25 اور 26 اگست 1941ء کے تین روہ اجلاس کے دوران پاکستان کی خالق جماعت کی ورکنگ کمیٹی نے قرارداد مذمت منظور کی۔ 19 نومبر 1930ء میں مولانا محمد علی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں برطانوی سامراج کو متنبہ کیا: ’’آزادی یا موت‘‘ اس کے چھ ہفتوں بعد انکی رحلت ہوئی۔ یہ اجلاس برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے تھا، لیکن وہاں بھی محمد علی جوہر نے صہیونیت پر طنز کیا۔ 7 اکتوبر 1947ء کو علامہ اقبال نے محمد علی جناح صاحب کو جو خط لکھا، اس میں مسئلہ فلسطین کی طرف توجہ دلائی اور یہ تاریخی الفاظ لکھے کہ ذاتی طور پر وہ اس ایشو پر جیل جانے کو بھی راضی ہیں، کیونکہ یہ ایشو اسلام اور غیر منقسم ہند کو متاثر کرتا ہے۔ 26 اپریل 1943ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے دہلی اجلاس میں قرارداد منظور کی، جس میں امریکہ میں صہیونی پروپیگنڈا کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا۔ اس قرارداد میں یہودیوں کی فلسطین نقل مکانی پر تشویش کا اظہار کرکے اس کی مذمت و مخالفت کی۔ بہت کھل کر برطانوی سامراج کی اسرائیل نوازی کی مذمت کی گئی۔ 14 نومبر 1943ء کو پاکستان کی خالق جماعت کے دہلی میں منعقدہ کاؤنسل اجلاس میں بھی برطانوی سامراج کو خبردار کیا۔(2)

علامہ اقبال نے برطانوی سامراجیت کے دور میں فلسطین دوست خاتون سیاسی فعال مس فرقوھرسن کو 20 جولائی 1937ء کو اور 6 ستمبر 1937ء کو فلسطین رپورٹ کے بارے میں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں الگ الگ دو خطوط لکھے، جس میں پاکستان کے نظریہ ساز قومی شاعر اور مفکر نے واضح کیا کہ ہمیں ہرگز یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ فلسطین کا انگلینڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انگلینڈ اسے لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے تحت قبضے میں رکھے ہوئے، جبکہ لیگ آف نیشنز کو ایشیائی مسلمان ایسا اینگلو فرینچ ادارہ سمجھتے ہیں، جو کمزور مسلمان اقوام کے علاقوں کو تقسیم کرنے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے۔ نہ ہی فلسطین یہودیوں کا ہے، کیونکہ عربوں کے پاس آنے سے طویل عرصہ قبل ہی فلسطین کو یہودی اپنے آزاد ارادے کے ساتھ خود ہی ترک کرچکے تھے۔ علامہ اقبال نے لکھا کہ صہیونیت کوئی مذہبی تحریک نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں صہیونیت درحقیقت برطانوی سامراج کو بحر متوسط کے خطے میں گھر دینے کے لئے قائم ہوئی۔ (یاد رہے کہ آج برطانوی سامراج کا جانشین امریکہ ہے)۔ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں 27 جولائی 1937ء کو علامہ اقبال نے تقسیم فلسطین پر مبنی رپورٹ کے بارے میں خطاب میں خبردار کیا کہ عربوں کو ضرور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ان عرب بادشاہوں کی نصیحتوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے کہ جو خود اس پوزیشن میں نہیں کہ فلسطین کے حوالے سے باضمیر اور آزاد فیصلے پر پہنچ سکیں۔ مس فرقوھرسن کو لکھے گئے 6 ستمبر 1937ء کے خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ وہ مصر، شام، عراق سے رابطے میں ہیں، انہیں نجف اشرف سے بھی خطوط موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ مس فرقوھرسن آپ نے یہ ضرور پڑھ لیا ہوگا کہ کربلا اور نجف کے شیعوں نے تقسیم فلسطین کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ ایرانی وزیراعظم اور ترکی نے بھی تقسیم فلسطین کے خلاف بات کی اور احتجاج کیا ہے۔(3)

بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح 25 اکتوبر 1947ء کو خبر رساں ادارے رائٹر کے ڈنکن ہوپر کو جو انٹرویو دیتے ہیں، اس کے پہلے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ مجھے اب بھی امید ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر بہت خطرناک تباہی ہوگی اور عدیم النظیر تنازعہ پیدا ہوگا اور یہ محض عربوں اور تقسیم کرنے والوں کے مابین نہیں ہوگا، بلکہ پوری دنیائے اسلام ایسے فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی، کیونکہ تاریخی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے ایسے فیصلے کی حمایت ہرگز نہیں کی جاسکتی اور ایسی صورت میں پاکستان کی پالیسی کیا ہوگی، یہ ہمارے انگزیزی میڈیم حکمران طبقے کی خدمت میں من و عن عرض ہے:In such a case, Pakistan will have no other course left but to give its fullest support to the
Arabs and will do whatever lies in its power to prevent what, in my opinion, is an outrage.(4)
اس ضمن میں مزید نکات بانیان پاکستان میں شامل اہم شخصیت ایم اے اصفہانی صاحب کی بابائے قوم محمد علی جناح سے خط و کتابت میں مل سکتی ہیں۔ اصفہانی صاحب امریکہ میں مقرر کئے گئے پہلے پاکستانی سفیر تھے۔ انکی جناح صاحب سے 1936ء تا 1948ء خط و کتابت 1976ء میں شایع ہوئی تھی۔ زیادہ نہیں صرف ایک خط جو انہوں نے 6 جون 1948ء کو بھیجا، اس میں لکھا:The only concern of the Security Council for the last three weeks has been Palestine. Nothing else matters. The Arabs are happy and are greateful to Pakistan for the great support that our country is giving them in their life and death struggle. The resolution of the Pakistan Assembly was very much appreciated by their representatives here. The final solution of this difficult problem will rest on the strength of the parties to the dispute. Even the so-called great powers respect strength more that justice and equality.(5)

اصفہانی صاحب نے یہ تاریخی جملہ لکھا کہ اس مسئلے کا حتمی حل فریقین کی قوت و طاقت پر منحصر ہے اور دنیا کی یہ نام نہاد بڑی طاقتیں بھی انصاف یا مساوات کی بجائے قوت و طاقت کا ہی احترام کرتی ہیں۔ آج اگر ایران اور اس کے اتحادیوں اور حامیوں نے بانیان پاکستان، ہند، عرب لیگ، او آئی سی وغیرہ کے اصل موقف اور اہداف کو اپنا لیا ہے تو یہ ایران کی پراکسی وار یا نیابتی جنگ کیسے ہوگئی؟ جناب! کہنا تو یوں چاہئے کہ ایران پورے عالم عرب و اسلام کی نیابتی جنگ لڑ رہا ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس کا ساتھ دیں اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم یوم القدس ہی سرکاری سطح پر منالیں اور بلا تقسیم فرقہ و مسلک و مذہب و رنگ و نسل اس میں شرکت ہی کرلیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات: ایک تا پانچ
The Jews In Palestine By Mahatma Gandhi Published in the Harijan 26-11-1938.
Pakistan Movement : Historic Documents by G. Allana
Speeches, Writings and Statements of Iqbal by Latif Ahmed Sherwani
Jinnah: Speeches and Statements 1947-1948
M.A. Jinnah Ispahani Correspondence 1936-1948

متعلقہ مضامین

Back to top button