پاکستان

سوشل میڈیا کو پاکستان اور سیکورٹی اداروں کیخلاف استعمال کرکے زہر اگلا جارہا ہے، آئی ایس پی آر

شیعیت نیوز: ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل آصف غفور نےکہا ہے کہ 2018 ملک میں تبدیلی کا سال ہے اور مختلف جماعتیں انتخابات میں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں تاہم فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو پاکستان اور سیکورٹی اداروں کیخلاف استعمال کرکے زہر اگلا جارہا ہے اور پچھلے چار ماہ میں پاکستان اور فوج کیخلاف اکاؤنٹس میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہےجن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، چند لوگوں کی شکل میں پورا نیٹ ورک ہے جو ٹوئٹ پھر ری ٹوئٹ کرتا ہے، ہم فوج کیخلاف برداشت کرجاتے ہیں مگر پاکستان کیخلاف بات برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے وقت پورا کیا، ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں، مبارکباد دیتے ہیں، الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، فوج کا کوئی تعلق نہیں، کوئی ٹاسک ملا تو آئین کے مطابق کردار ادا کرینگے، میڈیا کو کبھی ڈکٹیٹ کرنیکی کوشش نہیں کی، اسد درانی نے کتاب لکھنے کیلئے این او سی نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ وانا میں پی ٹی ایم کارکن فوج مخالف نعرے لگا رہے تھے، امن کمیٹی نے منع کیا تو دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا جس میں ہلاکتیں ہوئیں، پی ٹی ایم اور منظور پشتین پر کئی سوالات، دشمن حمایتی بنے ہیں، استعمال کیے جانے کے ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سلمان بادینی کا نیٹ ورک توڑنے سے بلوچستان میں امن کی صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی پاک فوج جیسی کامیابی کسی نے حاصل نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں امن قائم ہوا، جرائم کنٹرول کرنے کیلئے پولیس اور انتظامیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان سیز فائر سمجھوتے کی پاسداری کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کی جانب سے زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بھارت سیزفائر معاہدے کی پاسداری کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پہلی گولی آنے پر کوئی نقصان نہ ہو تو کوئی جواب نہیں دیں گے، بھارت کی جانب سے اگر دوسری گولی آئی تو پھر بھرپور جواب دیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے 13 برس میں 2 ہزار سے زائد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور صرف 2018 میں 1 ہزار 77 سیز فائر خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں، بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں اور ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈی جی ایم اوز نے جن باتوں پر اتفاق کیا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام، سیکیورٹی فورسز اور میڈیا نے سیز فائر کے معاملے پر انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ باڑ کی اور فورس بنانے کی کوشش کو آہستہ نہیں کر رہے، پچھلی دو دہائیوں میں وہ کام کیا جو کسی اور ملک نے اس طرح کے چیلنجز ہوتے ہوئے نہیں کیا۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب سے افغانستان کے ساتھ جیو فینسنگ شروع کی تو سرحد پار فائرنگ کے 71 واقعات ہوئے، سرحد پار فائرنگ سے 7 سپاہی شہید اور 39 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر وہ کام کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جب بھی کسی بیرونی خطرے پر بات کی تو پوری لیڈرشپ نے فیصلہ کیا اور آگے چلے، ہم سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں امریکا کامیاب ہوکر افغانستان سےنکلے اور ایک مستحکم افغانستان چھوڑ کر جائے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ضروری ہے کیونکہ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں جو بھی دہشت گرد ہیں ان سے مقابلے میں آسانی ہو گی۔ آپریشن ضرب عضب میں تمام دہشت گروپوں کا صفایا کیا، اس وقت پاکستان میں بشمول حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی منظم دہشت گروپ کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان اور امریکی بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ضرب عضب سے جو دہشت گردوں کی تعداد تھی اسے ختم کر دیا۔ ایران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ سرحد پر حالات بہتر ہوئے ہیں اور محفوظ سرحد دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے 100 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث سلمان بادینی کو ہلاک کیا گیا، سلمان بادینی کی ہلاکت پر ہزارہ کمیونٹی کا بہت اچھا رد عمل سامنے آیا۔ بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تو آرمی چیف بھی کوئٹہ گئے اور متاثرین سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ سلمان بادینی کا نیٹ ورک توڑنے سے بلوچستان میں امن کی صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔ فاٹا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کا تاریخی انضمام ہوا جو فاٹا کو ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین آرمی چیف سے ملے اور قومی قیادت نے مل کر فاٹا کا تاریخی فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سمجھتے ہیں فاٹا کے معاملے پر 100 فیصد اتفاق نہیں تھا اور کچھ انضمام نہیں چاہتے تھے لیکن اب انضمام ہو گیا ہے، فاٹا یوتھ جرگے کو آرمی چیف نے کہا کہ جو انضمام کے حق میں نہیں تھے انہیں ساتھ لے کر چلنا ہے۔ فاٹا کے انضمام کا افغانستان کی سرحد کے ساتھ نہ پہلے کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی نیوز کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم ) اور اس کے سربراہ منظور پشتین کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا کہ منظور محسود کیسے منظور پشتین بنا؟کیسے سوشل میڈیا پر مہم چلی؟ کیسے افغانستان میں پانچ ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنے ؟کیسے بیرون ملک سے ٹوپی بن کر آگئی؟ انہوں نے کہا کہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دشمن اور پاکستان کے استحکام کے مخالف کیوں پی ٹی ایم کے حمایتی بنے ہوئے ہیں ؟ کیوں ان کی تعریفیں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ ان کی منظور پشتین اور محسن داوڑ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کچھ باتیں بتائیں تھیں جو نقیب اللہ محسود کے بارے میں تھیں، لاپتہ افراد اور چیک پوسٹ کے معاملات تھے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ منظور پشتین اور محسن داوڑ سے ملاقات کے بعد دونوں کی جی او سی سے بھی ملاقات کرادی تھی ،جس کے نتیجے میں تمام مسائل حل ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ محسن داوڑ نے تو یقین دہانی پر شکریہ بھی ادا کیا جو ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا اسے نظر انداز کر رہا ہے جس پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو پاکستان کے استحکام سے خوش نہیں وہ آپ کے ساتھ مل جائیں اور آپ کی تعریف شروع کر دیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے؟۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف کی سخت ہدایات تھیں کہ کسی بھی جگہ پر ان کے اجتماع کو فورس سے ڈیل نہیں کرنا، جب انہوں نے لاہور میں جلسہ کرنا تھا تو خبر آنا شروع ہوئی کہ ہم پکڑے گئے، آرمی چیف نے انہیں گرفتار نہ کرنے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا لیکن اب ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ استعمال ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وانا میں ان کا محسود قبیلہ ہے اور انہوں نے پچھلے سالہا سال دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی، یہ آپس میں لڑے اور اُس میں جو ہلاکتیں اور زخمی ہوئے انہیں فوج کے ہیلی کاپٹرز سے ریسکیو کیا گیا۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فوج کی فائرنگ سے بچی ماری گئی، پاکستان نے پچھلے 20 سال میں قربانیاں دے کر امن حاصل کیا اور جو ہم نے حاصل کیا سپر پاور سمیت کسی ملک نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب اکٹھا رہنے اور ملک کو آگے لے کر چلنے کا وقت آ گیا ہے، سوشل میڈیا پر جھوٹے نعرے لگانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کی محبت فوج کے لیے پچھلے 10 سال میں زیادہ ہوئی ہے کم نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا ہمیں یقین ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہے، اس قسم کے نعروں سے یا کوئی نام دینے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ہر چیز کا جواب نہیں دے سکتے، کسی پارٹی یا پی ٹی ایم کا جواب نہیں دے سکتے، ہمیں اپنے کام پر فوکس کرنا ہے اور کرتے رہیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بہت سے الزام لگے، سب گواہ ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام الزماات جھوٹے ثابت ہوئے، صفائی دینے کی ضرورت نہیں، اپنی کارکردگی دنیا میں دکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سپر پاورز سمیت کوئی فوج اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی پاک فوج نے دہشت گردی کےخلاف کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹ پر سپاہی شہید ہوتا ہے، کیا چیک پوسٹ اس لیے لگائی گئی کہ سپاہی کا فائدہ ہوتا ہے؟ چیک پوسٹ پر جو سپاہی کھڑا ہے، اگر میڈیا پر اس کے خلاف تقریریں ہوں وہ کیسے کھڑا ہو گا؟ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان اور فورسز نے اپنی زندگی ملک کے نام لکھی ہوتی ہے، ہمیں کچھ نہیں چاہیے، صرف چاہتے ہیں اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے مفاد کو پیچھے نہ چھوڑیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فوج کو گالیاں دینے سے آپ کا قد بڑا ہوتا ہے تو دیں لیکن اگر ایسا کرنے سے پاکستان کا قد چھوٹا ہوتا ہے تو یہ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے برداشت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن جس دن اس کا نقصان پاکستان کو ہوا تو اس دن برداشت نہیں کریں گے۔ کراچی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بہت سے عرصے سے دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا، کراچی جرائم کی شرح کے حوالے سے چھٹے نمبر پر تھا، رینجرز اور پولیس نے بہت کام کیا اور وہاں امن کو لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کراچی کی عوام خود کھڑی ہو گی تو یہاں کے امن کو کوئی خراب نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کرائم کو کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہے اور پولیس میں کتنے ریفارمز کی ضرورت ہے سب کو پتا ہے، جب تک پولیس اور سول انتظامیہ ٹھیک نہیں ہو گی تو کرائم پر اس طرح سے قابو نہیں پایا جاسکتا جس کی توقع کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہماری طرف سے اگر کسی صحافی کو کہا گیا ہو یا بات کی گئی ہو کہ یہ کہیں اور یہ نا کہیں تو ضرور بتایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے اچھا کام کیا لیکن سوشل میڈیا کا استعمال اور اثرات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسی نے ملک دشمن ڈیزائنز کو چیک کیا اور اس کا جواب دیا ہے اور یہی چیز تنگ کرتی ہے، ہمارے پاس اہلیت ہے کہ دیکھ سکیں سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے۔ اسددرانی کی کتاب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے اپنی کتاب لکھنے سے پہلے کوئی این او سی نہیں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسد درانی کی ایک شخصیت کا سب کو علم ہے اور ان کے خلاف پہلے ہی اصغر خان کیس بھی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی اسد درانی کی کتاب چھپی اس کا مواد دیکھا گیا، اسد درانی نے جتنے واقعات کی بات کی وہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کو 25 سال ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اسد درانی کی کتاب کی بات آئی تو ادارے نے خود نوٹس لیا اور انہیں طلب کر کے وضاحت مانگی، مطمئن نہ ہونے پر انکوائری کورٹ تشکیل دی گئی، انکوائری شروع ہوگئی ہے اور نتیجہ جلد آئے گا جسے شیئر کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے کتاب لکھنے اور ایک عام افسر کے کتاب لکھنے میں کافی فرق ہے، یونیفارم پہننے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا بلکہ غلطی سب کرتے ہیں لیکن پاک فوج نے کسی کو غلطی پر معاف نہیں کیا چاہے وہ جنرل ہو یا سپاہی۔ مان کا کہنا تھا کہ سروس کے دوران باتوں پر کتاب میں تجربہ لنک کریں تو ٹھیک نہیں۔ ملک میں انتخابات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں حکومت نے اپنا وقت پورا کیا اور اس پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں، پاک فوج کو خوشی ہے دوسری جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کب کرانا ہیں کیسے ہونے ہیں یہ الیکشن کمیشن کا مسئلہ ہے لیکن سب کی خواہش ہے کہ الیکشن ٹائم پر ہوں، نئی حکومت آئے اور چیلنجز کو لے کر چلے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، اس حوالے سے فوج کے پاس کوئی ٹاسک آئے گا تو آئین کے مطابق کردار ادا کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں بہتر ہو۔ میڈیا کو ڈکٹیشن دینے کے حوالے سے ترجمان پاک فوج نے میڈیا مالکان کو کسی طرح کی ہدایات دینے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا مالکان سے جب بھی بات ہوئی میں نے کہا پاکستان کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے، میڈیا نمائندوں کو کبھی ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button