مقالہ جات

امریکہ کا عالمی سطح پرجارحانہ اندازاور نئی محاذ آرائی

امریکہ چین کی جانب تو آگ سعودیہ کی جانب لپک رہی ہےاور ساتھ ہی دولاکھ داعشیوں کو سوڈانی پاسپورٹ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں افغانستان میں بسیایا جارہا ہے۔ واشنگٹن کے حالات اور موصولہ اطلاعات ظاہر کرتیں ہیں کہ ٹرمپ جلد از جلد شام سے نکل جانے کا فیصلہ کرچکا ہے ۔تودوسری جانب پیٹاگون کی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ باتیں پروپگنڈوں کے سوا کچھ نہیںکہ اب امریکہ کی دوڑ یں چین کے پیچھے لگنے جارہی ہیں ۔ادھر دمشق کےدروازے غوطہ میں پینٹاگون کے جرنیل دانت بھینچنے کے سواکچھ نہیں کرپائے ،اس شرمناک ہزیمت کی سزا کے طور پر جلد ہی امریکی شکست خوردہ فوج کے وزیر دفاع کی چھٹی ہوسکتی ہے ۔وہ رات بھی امریکی فیصلے کی بڑی دلیل ہے کہ جس رات میں ٹرمپ اپنے جرنیلوں کے ساتھ بیٹھ کر شام سے بھاگ کھڑے ہونے کا فیصلہ کررہا تھا ۔ امریکہ کے لئے ایک بار پھر سے چینی سمندر کی جانب رخ کرنے کا وقت آن پہنچاہےلیکن اس بار صرف چین نشانہ نہیں بلکہ یوروشین بلاک کے خلاف ایک نئی سازش اور اسٹریٹجک بھیڑاکھٹا کرنے کی کوشش میں ہے ۔یوروشین بلاک کے بنیادی ممبر یعنی روس چین اور ایران کو نشانہ بنانے کے لئے ان دہشتگردوں کو افغانستان میں اکھٹا کیا جارہا ہے جو عراق اور شام میں تھے ۔ایک بار پھرسب سے بڑے چال باز اردگان اور قطر کے ساتھ اس بار سوڈان کے عمر البشیر کا تعاون بھی اس میں شامل ہے۔وائٹ ہاوس کے جنگی تاجروں نے اس بار عمر البشیر کو خریدا ہے کہ جس نے دولاکھ سوڈانی پاسپورٹ فراہم کئے ہیں تاکہ شام کے جنگی فضلے کو افریقہ اور افغانستان میں شفٹ کیا جاسکے۔امریکہ نہ بدلاہے اور نہ ہی اس کے سامراجی جارحانہ مزاج میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے وہ بس اپنے آپشن بدلتا جارہا ہے ۔اس صدی کے آغاز سے لیکر ابتک امریکہ مسلسل شکست اور ہزیمت کا سامنا کررہا ہے خواہ وہ عراق ہو،افغانستان ہو شام ہو یا پھر یمن میں ،یہاں تک کہ ایران کے نیوکلئیر پروگرام کا ایشو ہو وہ ہرمحاذ پر شکست سے دوچارہوا ہے ۔وہ اپنی ظاہری پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لئے اقتصادی ،مالی اور سیاسی عناصر کو یکجا کرنے کی کوشش کررہا ہےاور اس کی کوشش ہے کہ وقت کی گھڑیاں الٹا چلیں اور سب کچھ پہلے جیسا ہو بالکل نوے کی دہائی کی طرح کہ جہاں وہ اکیلا ہی سپر پاور کہلاتا تھا ۔امریکہ کا عالمی سطح پرجارحانہ اندازاورایک مکمل محاذ آرائی کی جانب قدم بڑھانے کے اسباب میں سے بعض یہ ہیں ۔
الف:تیل اور گیس ،توانائی کااہم ذریعہ اور اس اقتصادی ترقی کا انجن کے طور پرتیل اور گیس کے ساتھ ساتھ کچھ اورایسے مخصوص میکانزم کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرناکہ جس کا تعلق صرف انرجی سے نہیں اور ہم اس کا ذکر بعد میں تفصیلا ًکرینگے ۔
ب:امریکی پروڈیکٹس کو فروغ دینا خاص کر ان پروڈیکٹس کو جو باہر سے درآمد بھی کی جاتی ہوں
خاص طور پر چین اور روس سے درآمدہونے والا لوہا، اسٹیل اور ایلومینیم کے مد مقابل ۔
ج:امریکی مہنگے داموں حاصل ہونے والے تیل کی پیداوار اور مارکیٹنگ کی بہتری اورتیل کی قیمت کو اوپر لانے کے لئے عالمی مارکیٹ میں ایک پیچیدہ مصنوعی مالی حالات پیداکرنا ۔

امریکا کی روسی معشیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش اس وقت ناکام ہوئی کہ جب اس کی کوشش تھی کہ وہ ترکمنستان ،عراق اور ایران کی گیس پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ قطر کی ایل پی جی کو ساتھ لیکر انہی ملکوں سے گیس کی پائپ لائن یورپ تک گذاری جائے اور یوں روس کی معیشت پر کاری ضرب لگادی جائے ۔لیکن یہ منصوبہ شام میں حکومت کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ وفاداری ،ایران میںسن 2009کی سازش کی میںناکامی اور حکومت کی مضبوطی کے سبب ناکام ہوا ۔شامی صدر کی جانب سے امریکا کے اس منصوبے کو ٹھکرائے جانے کے بعد امریکہ نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ جس کا ہدف ایران وینزویلا اور روس تھے اور اس منصوبے میں سعودی عرب نے امریکہ کا ساتھ دیا اور یوں تیل کی قیمت گر کر تیس ڈالر بیرل تک جاپہنچی تھی۔اس وقت انرجی کے ذخائر اور معیشت پر کنٹرول کرنے کا امریکی منصوبہ درپردہ دنیا پر پھر کنٹرول اور اپنی بالادستی کی کوشش ہے ۔جیسا کہ اس وقت اس نے روس،ایران اور چین کیخلاف اقتصادی حملوں کے ساتھ ساتھ عسکری مومنٹس بھی شروع کردیے ہیں ۔ان ممالک کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگانے اور کسٹم کے سخت قوانین لاگوکرنے کا اصل مقصد ان ممالک کی معشیت کو دبا ومیں لانا ہے ۔
لندن میں انرجی امور سے متعلق ادارے Energy Information Administration IHS Market کے تجزیہ کار Spencher Welch کے مطابق اس وقت امریکی تیل کی پیداوار ایک کروڑ83 ہزار بیرل یومیہ ہے جو اس سال کے آخر تک ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ جائے گی ۔یہ تعداد سعودی عرب کی تیل کی یومیہ پیداوار کو پچھے چھوڑ دے گی جبکہ سن 2019تک امریکہ تیل کی پیداوار روس کو بھی پچھے چھوڑ دے گی ۔ادھر امریکی بینک Golden Sax کے انرجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں تیل کی قیمتیں 82ڈالر سے بھی بڑھ جاینگی ۔اس صورتحا ل کو پیش نظر رکھ کر ہی چینی حکومت نے امریکی مصنوعات پر اضافی کسٹم ڈیوٹی لگادی ہے جبکہ وہ چینی کرنسی یوان کو عالمی اقتصادی معاملات خاص کر تیل کی خرید و فروخت میں بروئے کار لارہا ہے ۔یہ چینی اعلان امریکی معیشت کےلئے شدید دھچکہ ہے ۔واضح رہے کہ اس وقت تیل کی تجارت میں نناوے فیصدسودے ڈالر میں طے ہورہے ہیں ۔ڈالر اس وقت بہت سے ممالک کی ریزور کرنسی ہونے کے ساتھ ساتھ ،تجارتی معاملات اور ٹرانزیکشن کی بنیادی کرنسی کی حثیت رکھتا ہے لیکن چین کے اس اعلان کے بعد بہت سے ممالک بشمول ایران اور روس کے اب چینی کرنسی میں معاملات کو ڈیل کرینگے جو یقینا امریکی ڈالر پر ایک کاری ضرب سے کم نہیں ۔

 چین کے اعلان کردہ اقدامات کےبعد انرجی کے سیکٹر میں اور اس کے حصول میں چینی معشیت پر کسی قسم کا کچھ زیادہ دباو نہیں بڑھے گا ۔روس کے بعد سعودی عرب دوسرا بڑا ملک کے جو چین کو تیل فروخت کرتا ہے ،چین سعودی عرب سے روزانہ بیس لاکھ سے زائد بیرل تیل خریدتا ہے جبکہ روس سے تیس لاکھ بیرل کے قریب تیل خریدتا ہے ۔چینی حکومت کے تعاون سے چین کی دو بڑی کمپنیوں نے سعودی عرب کے آرمکو کے پانچ فیصد حصص خریدنے کی بات بھی کی ہوئی ہے کہ جیسے مسقبل میں سعودی عرب اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتا ہے ۔لیکن اب امریکی دباؤ کے سبب سعودیہ عرب نے چین کی اس آفر کا جواب نہیں دیا ہے کیونکہ یہ چیز امریکی اسٹرٹیجی کے برخلاف جارہی ہے ۔

اس بات کا پورا امکان ہے کہ امریکہ زمینی دریائی اور دہشتگردانہ کاروائیوں کے زریعے سے روس اور چین کیخلاف مزید کوششیں کرے گا اور ہوسکتا ہے امریکہ بہت جلد سعودی عرب سے کہے کہ وہ چین کو تیل کی فروخت روک دے اور اگر سعودی عرب تیل کی فروخت بند کردیتا ہے تو یہ چیز اس کے اندرونی محاذکو گرما سکتی ہےخاص کر کہ شہزادہ بن سلمان اس وقت اصلاحات کے نام پر جو کچھ کررہا ہے اس سے آلِ سعود اور سعودی معاشرے میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اس میں علاقائی قوتیں بھی مزید اضافہ کرنے کی کوشش ضرورکرینگی ،اور چند ایک خلیجی ملک بھی اس موقعے کا فائدہ ضرور اٹھاینگے ۔

یہی وہ اہم نکتہ ہے کہ جہاں سے امریکہ آلِ سعود سے پیچھا چھڑانے کی بات کرے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل اس خطے میں اپنے غنڈے شاہ ایران سےاس وقت پیچھا یا چھڑایا تھا کہ جس وقت حالات اس کیخلاف ہوچکے تھےاورجیساکہ وہ مصر کے حسنی مبارک کے ساتھ کرچکا ہے ۔اُس وقت آلِ سعودکیخلاف دہشتگردی کیخلاف اسپیشل امریکی قانون امریکی جسٹس ایکٹ بھی فورا لاگو ہوجائے گا ۔بہت جلد ہی سعودی عرب میں جمہوریت کے نعرے اٹھنے لگیں گے جو آہستہ آہستہ مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوجاینگے ،جو شہزادہ بن سلمان کو چلے جانے کا مطالبہ کرینگے جیساکہ دیگر ممالک میں ہوتا آیا ہے ۔جو کچھ صورتحال ہمارے سامنے ہے اس میں اس بات کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔نجد و حجاز میں خلفشار اٹھنے کے بعد جلد ہی امریکی نام نہاد اعتدال پسند حزب اختلاف بھی میدان میں اتر آئے گی جس کا کام امریکی ایجنڈوں کا نفاذ ہوگا ۔ہم مزاحمتی بلاک کی کامیابی کے بعد کے مرحلے سے گذررہے ہیں کہ جہاں صیہونی غاصب حکومت گہری کھائی میں جاکر گر رہی ہے ۔ہم یمن کی اس انتہائی عظیم اور اسٹرٹیجکل کامیابی کے انتظار کو سمجھ سکتے ہیں جو سقوط کی جانب بڑھتی بنی سعود کی سلطنت پر ہونے جارہی ہے ،تو دوسری جانب ترکی کی گرتی معیشت اور صیہونیوں کی اندرون خانہ کمزور ہوتی پوزیشن کو دیکھ سکتے ہیں ۔

صادق الحسینی ۔خلاصہ و ترجمہ

متعلقہ مضامین

Back to top button