مقالہ جات

سب دشمن ہیں بس آپ کے سوا

اٹلانٹک میگزین کو دیا گیا سعودی شہزادے کا طویل انٹریو مسلسل علاقائی اور عالمی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے ٹیبل پر زیر بحث ہے ۔
بات یہ نہیں ہے کہ یہ کسی دانشور کی پیش کردہ کوئی سوچ ہے یا کسی مفکر کی فکر ہے جیسے سمجھنا اور پرکھنا ضروری ہےبلکہ اس کے انٹریو میں استعمال ہونے والی وہ زبان اور لب و لہجہ ہے جس کے بارے میں زیادہ تر تجزیہ کار توقع نہیں رکھتے تھے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خادم حرمین کے خطاب کا امیدوار یہ شہزادہ اپنے انٹریو سے ثابت کرگیا ہے کہ وہ بولتا عربی ہے لیکن سوچتا عبری ہے یعنی ہیبرو زبان جو اسرائیل میں بولی جاتی ہے
بن سلمان نے اپنے انٹریومیں جو کچھ کہا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سب میرے مخالف ہیں ماسوائے اسرائیل کے وہ اسرائیلوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ کے سوا سب میرے دشمن ہیں ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ اس نے تمام ان قوتوں کو دشمن کے طور پر پیش کیا جو فلسطین میں صیہونی غاصبوں کیخلاف برسرپیکار ہیں اور خطے میں سامراجی قوتوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑی ہیں ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر بغور دیکھا جائے تو بن سلمان کے انٹریو میں موجود الفاظ اور اصطلاحات بھی اسرائیلی بڑوں کے خطابات سے ماخوذ دیکھائی دیتے ہیں جیسے اس کا یہ کہنا ’’ہم ایک ایسے علاقے میں ہیں جو میکسیکو، کینیڈا، اٹلانٹک اوقیانوس اور بحر الکاحل سے گھیر اہوا نہیں ہے بلکہ ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاںداعش، القاعدہ، حماس، حزب اللہ، ایرانی ، اخوان المسلمون اور یہاں تک کہ بحری قزاق موجود ہیں ‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو اسرائیلی اکثر بین الاقوامی فورمز میں استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی مظلومیت اور مشکلات کو دوسروں کے سامنے بیان کرسکیں ۔
وہ کہتے رہتے ہیں کہ اسرائیل جیسا ماڈرن اور جدید ملک اپنے اطراف ایک وحشی ،شدت پسند ،دہشتگرد،غیر تہذیب یافتہ دشمنوں میں گھیرا ہواہے ۔
سعودی شہزادے نے جن قوتوں کو اپنا دشمن بنا کر پیش کیا یہ وہی قوتیں ہیں جیسے آج تک سامراجی قوتیں اور اسرائیل اپنے وجود کے لئے خطرہ کے طور پر پیش کرتی آئی ہیں ۔
ان کی جانب سے ایرانی قیادت کو ہٹلر سے تشبیہ دینے کا مقصد اسرائیلی یہودیوں کو خوش کرنا تھا جوہٹلر کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور نازی دور میں گیس چیمبروں میں یہودی نسل کشی کادعواکرتےہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بن سلمان کا یہ کہنا کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلوں کا بعنوان یہودی تاریخی حق ہے کیونکہ وہ وہاں کسی زمانے میں رہا کرتے تھے ایک بہت بڑی تاریخی غلطی ہے کہ جس کاخمیازہ بعد میں بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ عظیم اسرائیل کی سرحدیں دریائے فرات سے نیل تک بنتی ہیں اور اگر سعودی شہزادے کی منطق کو مان لیا جائے تو پھر مکہ مکرمہ اور مدینہ منور ہ میں موجود تاریخی یہودی مقامات خیبر اور یثرب وغیرہ کے بارے میں بھی اس منظق کو مان لینا ہوگا ۔
اس کی رو سے تو نہر فرات کے علاقے میں آباد تمام ملک بشمول عراق کے کربلا نجف سے لیکر مصر تک تمام علاقوں پر اسرائیلی تاریخی حق ماننا پڑے گا جیسا کہ وہ دعوا بھی کرتے ہیں ۔
اخوان المسلمون کے جنرل آفس کا سعودی شہزادے کے انٹریو کے بارے میں کہنا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس کے پچھے دراصل امریکی اسرائیلی خشنودی کے زریعے بادشاہت تک پہنچنے کی کوشش ہے ،وہ اسی لئے ہم پر دہشتگردی کی ماں ہونے کا الزام لگا رہاہے ۔
ادھر برطانوی اخبار ڈیلی میل نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی شہزادہ اس پر فخرکرتے اترارہا ہے کہ اس کا ٹرمپ کے یہودی داماد جاريد کوشنرسے گہرا تعلق بن چکا ہے اور ان میں اچھی دوستی ہوئی ہے
اور اسی دوستی کی بنیاد پر اس نے سعودی عرب میں کرپشن کے نام پر اپنے مخالفین کا جس طرح صفایا کیا ہے اس کے بارے میں امریکی رائے عامہ میں مثبت رپورٹنگ کرنے میں مدد ملی ہے ۔
ڈیلی میل امریکی The Interceptسائٹ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ بن سلمان نے وابوظبی کے ولی عہد بن زائد کے سامنے اس بات کو لیکر فخر کیا کہ اس کے اور جارید کوشنر کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی دوستانہ ہے اخبار کے مطابق اس کا کہنا تھا کہ صدر کا داماد میرے جیب میں ہے ۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اسرائیلی یہودی داماد کوشنر اپنے سسر یعنی امریکی صدر کے سب سے اہم اور بڑے ایڈوائزر بھی ہیں کہ گذشتہ سال ٹرمپ کی بیٹی ایونکا اور کوشنر کا سعودی عرب میں انتہائی غیر معمولی استقبال کیا گیا تھا اور کروڑوں ڈالر کے تحفوں سے نوازا گیا تھا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button