مقالہ جات

آل سعود کی امام مہدی اور ولایت ققیہ کے خلاف سازش بے نقاب

کیا سعودی شہزادہ امام مہدی مخالف بلاک تشکیل دینا چاہتا ہے ؟
امام مہدی سے بن سلمان کی دشمنی کیوں ؟
فرضی دشمن داخلی ضرورت یا خارجہ پالیسی ؟
افریقہ سے ایشیا اور مشرق وسطی تک امام مہدی کی تحریک کیخلاف اقدامات
سعودی شہزادےنے ایک بار پھر سے اس بات کو دہرایا کہ وہ امام مہدی کے ظہور کے لئے کئے جانے والے اقدامات (انتظار ) کو روکنا چاہتا ہے سعودی شہزادے نے اس بات کو ایران کیخلاف اپنے روائتی الزامات اور لب و لہجے کے ساتھ دہرایا اور ایران پر الزام لگایا کہ وہ امام مہدی کے ظہور کے لئے پوری دنیا میں مصروف عمل ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افریقہ سے لیکر ایشیا تک وہ امام مہدی کے ظہور کےلئے کی جانے والی ایرانی تگ و دو کا راستہ روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔
اس سلسلے میں انہوں نے جو کچھ کہا اس کا لفظ بہ لفظ ترجمہ یہ ہے ’’ ہمارے سامنے ایک ایسا ایرانی نظام ہے جو سخت گیر شیعہ نظریا ت کو پھیلانا چاہتا ہے جو ولایت فقیہ کی شکل میں ہے ،
وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس سوچ کو پھیلاتے ہیں توان کا خفیہ یا پوشیدہ امام ظہور کرے گا اور ایران سے پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا اور امریکہ تک اسلام کو پھیلائے گا اور وہ اس بات کو 1979کے انقلاب کے بعد سے کہہ رہے ہیں اور یہ چیز ان کے قوانین میں ایک تسلیم شدہ بات ہے اور ان کے اقدامات سے بھی ثابت ہورہی ہے ۔
ہم ان ایرانی اقدامات کو روکنے میں لگے ہوئے ہیں ہم ان کی اس فکر کو افریقہ ،ایشیا ملیشیا سوڈان ،عراق ،لبنان اور یمن میں روک رہے ہیں ۔
ہمیں یقین ہے جب ہم اسے ان جگوں پر روکے گے تومسائل کا رخ ایران کے اندر کی جانب ہوگا ہمیں نہیں معلوم ایران کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا یا نہیں اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں لیکن اگر نظام تباہ ہوا تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ،کیونکہ یہی تو اصل پرابلم ہے ‘‘۔
سعودی شہزادے نے اس سے پہلے بھی العربیہ کو دیے گئے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ ’’ایران کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ امام مہدی کے ظہور کا عقیدہ رکھتا ہے اور اس عقیدے کے لئے کام کررہا ہے ‘‘۔
اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ایک ایسا بلاک تشکیل دینا چاہتا ہے جو مشرق وسطی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدے کا مقابلہ کرے
اور اس وقت وہ اپنے خیال میں افریقہ سے ایشیا تک امام مہدی کی آمد کا راستہ روکنے میں مصروف ہے ۔
انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر کے بارےمیں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے اسے ڈکٹیٹر کہا کیونکہ وہ عصر غیبت امام مہدی میں ایک ایسے شیعہ رہبر ہیں جو عقیدہ مہدویت اور ظہور امام مہدی کی جانب لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور اسی سلسلے میں کام کررہے ہیں ۔
سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ پہلے ہی ایک جنگ چھیڑکر کم تکلیف برداشت کی جائے تاکہ بعد میں بڑی تکلیف سے بچا جاسکے شائد بعد سے مراد وہ امام مہدی کے ظہور اور پھر ظالموں کیخلاف قیام کا مرحلہ لے رہا ہے، جیسا کہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے ۔
ان کے الفاظ یہ تھے ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ایک ممکنہ جنگ کا منظر نامہ ہمارے پیش نظر ہے ،ہم یہاں کسی بھی قسم کا خطرہ مول نہیں سکتے ہمیںبعد میں مزیددردناک اور تکلیف دہ فیصلوں سے بچنے کے لئے، ابھی تکلیف دہ فیصلے کرنا ضروری ہے‘‘
سعودی شہزادے نے دنیا کو بھی خوفزدہ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس سوچ (عقیدہ انتظار امام مہدی)کو پھیلاتے ہیں توان کا خفیہ یا پوشیدہ امام ظہور کرے گا اور ایران سے پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا اور امریکہ تک اسلام کو پھیلائے گا‘‘۔
سعودی عرب کی جانب سے بیرون ملک بیٹھے ایران کے اسلامی انقلاب مخالف گروہوں کے ساتھ تعلقات ،عراق میں مختلف شیعہ شخصیات کو عرب قومیت کے نعرے سے اپنی جانب کرنے کی کوشش اور ان شیعہ گروہوں کو اپنے ساتھ ملانے کی تگ دو جو کسی نہ کسی وجہ سے ایران سے دور کئے جاسکتے ہیں ،ایک واضح ایجنڈے کے طور پر دیکھائی دیتا ہے ۔
حال ہی میں بعض گروہوں کی جانب سے ایران کے رہبر اعلی کیخلاف پروپگنڈے کی کوشش کے پچھے بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا تھا کہ جس وقت سعودی شہزادہ برطانیہ میں موجود تھا اور اس پروپگنڈے کا آغاز بھی برطانیہ سے ہی ہوا تھا ۔
سعودی شہزادہ عقیدہ مہدویت اور ظہور امام مہدی کے لئے کوشش کرنے والے ایرانی سپریم لیڈر کو دنیا کے باقی شیعہ مسلک کے افراد سے دور کرنے کی کوشش میں دیکھائی دیتا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں آباد شیعہ مسلک کے افراداور بحرین میں عوامی احتجاج کو کچلنے ،لبنان میں شیعہ جماعت حزب اللہ کیخلاف اقدامات اور یمن میں بمباری ایسے موضوعات ہیں کہ وہ کبھی بھی شیعہ مسلک کے افراد کو ان کی قیادت سے دور نہیں کرسکتا۔
دوسری جانب عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خاطر ایران کی شیعہ رہبریت اور عراق میں موجود شیعہ قیادت نے جس انداز سے مل کر کام کیا ہے اس نےاس مسلک ماننے والوں کے درمیان مزید محبت کو فروغ دیا ہے ۔
اس کے علاوہ قبلہ اول اور فلسطین کے بارے میں رہبر اعلی ایک واضح اور دو ٹوک موقف رکھتے ہیں اور انکا یہ موقف جہاں ایک جانب سیاسی ہوسکتا ہے تو دوسری جانب وہ اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں اس موقف کی بھاری قیمت دینی پڑرہی ہے لیکن وہ اپنے موقف میں کسی قسم کی لچک دیکھانے کے لئے تیار نہیں دیکھائی دیتے ۔
یہ بات واضح ہے کہ امام مہدی کے بارے میںتمام مسلمان ایک واضح عقیدہ رکھتے ہیں لیکن شیعہ مسلک میں اس عقیدے کو لیکر جس قدر وضاحت اور شفافیت پائی جاتی ہے کسی اور مسلک کی تعلیمات میں دیکھائی نہیں دیتی ۔
شیعہ اس وقت خود کو غیبت کے زمانے میں سمجھتے ہیںاور امام مہدی کا انتظار اور ان کے ظہور کی تیاری کرنا ان کے فرائض میں شامل ہیں جبکہ جب تک امام مہدی کا ظہور نہیں ہوتا اس وقت تک امام مہدی کے بنائے گئے نظام اجتہاد و فقاہت ہی سے وہ اپنی دینی وابستگی رکھتے ہیں ۔
گرچہ ایک نجات دہندہ کی آمد کا نظریہ تمام ادیان اور مکاتب فکر یہاں تک کہ فلسفہ تاریخ اور سماجیات کے اعتبار سے بھی ایک واضح اور ثابت شدہ مسئلہ ہے ۔
آخری زمانے کے عنوان سے بین الاقوامی سطح پر بنے والی سینکڑوں ڈاکیومنٹریز ،فلمیں ،کتابیں اور مضامین اسی نجات دہندہ کی آمد سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔
ا س فرق کے ساتھ کہ دنیا کی سامراجی قوتیں اپنی فتح اور غلبے کی بات کرتی دیکھائی دیتی ہیں لیکن آسمانی مذاہب بشمول اسلام کے اس نجات دہندہ کی آمد کو کمزور اور پسے ہوئے افراد کی طاقتورظالم کیخلاف جدوجہد کا دی اینڈ کہا گیا ہے کہ جس کے بعد انصاف پر مبنی ایک بین الاقوامی نظام قائم ہوگا ۔
شائد سعودی شہزادے کو یہ بات ناگوار گذر رہی ہوگی کہ مسلمانوں کی کتابوںکے مطابق امام مہدی کی آمد مکے اور خانہ کعبے میں ہوگی اور امام مہدی مکہ مکرمہ کو اپنی یونیورسل حکومت کا دارالخلافہ قراردینگے ۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب میں سعود خاندان کو اپنی بادشاہت جاری رکھنے کے لئے ایک فرضی دشمن کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے خلاف کسی بھی داخلی خلفشار کو روکا جاسکے ۔
کیونکہ سعودی بادشاہت ایک جانب امریکی اتحادی ہے تو دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی کے سبب وہ اپنی عمر کوتاہ نہیں کرسکتے۔
لہذا انہوں نے ایران ،قطر اور اخوان المسلمون کو فرضی دشمن کے طور پر پیش کررکھا ہے تاکہ داخلی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی معاشرتی وحدت کو بھی برقرار رکھنے میں مدد مل سکے۔
ایک صدی کے قریب سخت گیر اور شدت پسند تشریح اسلام یعنی وھابیت اور سلفیت کے پرچار نے بھی خود بخود سعودی بادشاہت کا کام آسان کردیا کیونکہ وھابی نظریے میں دوسرے اسلامی فرقوں اور مسالک کے بارے میں عدم برداشت کی تھیوری نے ایران جیسے شیعہ اکثریتی ملک کو بعنوان دشمن کے پیش کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
جبکہ سیاسی میدانوں میں اخوان المسلمون کا نظریہ براہ راست بادشاہت کی مذہبی حثیت کو زک پہنچاتا ہے اس لئے اس نظریے اور اس کے مددگار ممالک جیسے قطراور ترکی کو بھی ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جانا آسان بن رہا ہے ،بن سلمان نے مصر میں ترکی اور قطر کو خطرناک شیطانی مثلث کا خطرناک حصہ قراردیا تھا ۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں بادشاہت کا مقام خادم حرمین اور سرپرست کے ہے جسے عوام اور ملک پر مکمل حق حاصل ہے کہ وہ ان کے بارے میں ان کی رائے معلوم کئے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرسکتا ہے ۔
امریکی تجزیاتی خبروں کی ویب سائیٹ مانیٹر میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق سعودی شہزادہ بن سلمان کی جانب سے ایران کو دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں ایرانی سمجھتے ہیں کہ ان دھمکیوں کی اسے داخلی طور پر ضرورت ہے اور ایرانی سمجھتے ہیں کہ جو سعودی عرب یمن جیسے ملک میں تین سال سےبغیر کسی ہدف کو حاصل کئے ڈوب رہا ہے وہ ایران جیسی ایک بڑی طاقت کا کیا مقابلہ کرسکتا ہے ‘‘
مانیٹر کا کہنا ہے کہ داخلی مسائل اور بحرانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے بیرونی خطرات اور دشمن تراشی سیاسی میدانوں میں استعمال کیا جانے والا ایک کامیاب حربہ ہوتا ہے جس سے زیرک سیاستدان اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں ‘‘۔
شہزادہ سلمان کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی قبضے کو حق قراردیے جانے کے بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا
قدم ہے اور اگر کہا جائے کہ بن سلمان نے تمام حدیں پار کرلیں ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔
کسی بھی عرب رہنما کو کھلے لفظوں اسرائیل کی اس طرح حمایت کرنے کی جرات کبھی نہیں ہوسکی ،حتی کہ اس موضوع پر یورپی اور امریکی بھی بڑے نپے تلے جملے ادا کرتے آئے ہیں کیونکہ وہ اس موضوع کی حساسیت سے واقف ہیں ۔
شائد یہی وجہ تھی کہ قبلہ اول اور فلسطین کے بارے میں بن سلمان کی گفتگو کے نشر ہوتے ہیں سعودی بادشاہ کی جانب سے بیان سامنے آیا اور فلسطین کے بارے میں اپنی روائتی پالیسی کو دہرایا گیا اور قبلہ اول کو فلسطین کو دارالحکومت کہا گیا ۔
لیکن تجزیہ کار باپ بیٹے کے درمیان ان متضاد بیانات کو نوراکُشتی سے تعبیر کرتے ہیں ،کیونکہ اسرائیل کے ساتھ سعودی خاندان کے تعلقات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کیونکہ اب وہ خود ان تعلقات پر فخر کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button