مقالہ جات

سعودی عربیہ یا سعودی عبریہ

یوں لگتا ہے کہ سعودی شہزادہ بن سلمان اپنے ہرانٹریو میں کھلے لفظوں اعترافات کا انبار لگا کر یا تو سستی شہرت چاہتا ہے یا پھر اپنی طفولت کا ثبوت دے رہا ہے 

پہلے انہوں نے قطر اور ترکی کو برائی کے مراکز کا اہم حصہ کہا اور پھر وھابیت پھیلانے کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے امریکیوں کے کہنے پر شدت پسند سوچ وھابیت اور سلفیت کو پھیلائی کیونکہ امریکیوں کو نام نہاد جہادازم کی ضرورت تھی ،اور اب اسرائیل کے حق میں کھلے لفظوں بولنے لگا ۔
اس انٹریو میں بھی بن سلمان نے عقیدہ مہدویت اور شیعہ مسلمانوں کے عصر غیبت میں مرکزیت حاصل رکھنے والا عقیدہ اجتہاد و فقاہت کو شدید حملوں کا نشانہ بنایا جبکہ سنی دنیا میں موجود دین کی سیاسی تشریح یعنی اخوان المسلمون کیخلاف بھی شدید الفاظ استعمال کئے جو ایک الگ تجزیے کے متقاضی ہیں اور ہم اپنے اگلے مضمون میں اس پر تفصیل سے گفتگو کرینگے
سعودی عرب میں طاقتورسمجھے جانے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہناکہ اسرائیل کو اپنی سرزمین(فلسطینی زمین) کا ’حق‘ حاصل ہےسے جڑے مسائل پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو
چند اہم نکات واضح ہو جاتے دیکھائی دیتے ہیں ۔
الف ـ: سعودی عرب اسرائیلیوں کے حق میں کی جانے والی اس ’’صدی کی سب سے بڑی ڈیل‘‘ میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے ۔
ب:صدی کی سب سے بڑی ڈیل میں قبلہ اول سمیت مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی قانونی حق کا اعتراف کرنااور فلسطینیوں کو انتہائی حد تک محدود کرنا ہے
ج:اسرائیل کو پوری عرب دنیا اور مسلم ممالک میں ایک ملک کے طور پر قبول کرانا اور تعلقات کو برقرار کراناہے ۔
اٹلانٹک میگزین کو انٹریو دینے سے پہلے سعودی عرب اور اسرائیلی ذمہ داروں کے درمیان بظاہر غیرسرکاری وفود کے درمیان تبادلہ اور دورے ہوئے ،پھر اردن میں ایک انتہائی اہم ملاقات انجام پائی جس کے بعد حال ہی میں بن سلمان کے دورہ امریکہ سے پہلے مصر میں ایک ملاقات ہوئی ۔
جبکہ مصراور سعودی عرب کے درمیان متنازعہ دو جزیروں کو سعودی عرب نے اسرائیل کے کنٹرول میں دینے کا معاہد ہ کیا اور اسی طرح اسرائیلی و بھارتی طیاروں کو سعودی فضائی حدودسے عبور اور ائرپورٹس سے ٹرانزٹ کرنے کی اجازت دی گئی ۔
اٹلانٹک میگزین کو دیا گیا انٹریو اور اہم نکات ۔
۱۔اس سے قبل سعودی عرب کے کسی اہم رہنما نے کبھی اتنے کھل کر مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی قبضے کے حق میں ایسا بیان نہیں دیا
انٹرویو کے دوران جب سعودی خادم حرمین کہلانے والے بادشاہ کے بیٹے سے پوچھا گیا، ’’کیا یہودی عقیدے کے لوگوں کو تاریخی طور پر ان کے آبائی وطن میں ریاست بنانے کا حق ہے؟‘‘ تو ان کا جواب تھا، ’’میری رائے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کا حق حاصل ہے۔‘‘
مطلب وہ فلسطینی سرزمین پر قابض اسرائیلی دعوئے کو تسلیم کررہا ہےجس کی آرزو اسرائیل اب تک کرتا آیا ہے کہ اس کے قبضے کو حق کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔
۲۔سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کے’’ دو ریاستی حل‘‘ کی حمایت سن 2002 میں کرنا شروع کی تھی دو ریاستی حل سے مراد یہ ہے کہ اسرائیل نے جن زمینوں پر قبضہ کرکے اپنا ملک بنایا ہے اسے تسلیم کریں اور وہ زمین اسے دیں یہ بالکل ایسا ہی کہ کوئی غنڈہ اور بدمعاش ٹولے کو لیکر کسی کی زمین اور پراپرٹی پر قبضہ کرلے اور پھر کہہ دے کہ چلو جگڑا ختم کرنے کے لئے دونوں کو پراپرٹی کا کچھ کچھ حصہ دیتے ہیں ۔
لیکن کچھ عرصے بعد قبضہ گروپ اپنی غنڈہ گردی جاری رکھتے ہوئے پوری پراپرٹی کا دعوا کرے اور محلے کے بڑے بھی رشوت لیکر یا پھر اس کے غنڈہ گردی سے ڈر کر اس کے دعوئے کی حمایت کریں ۔
شہزادہ بن سلمان نے انٹریو میں اسرائیلی غنڈہ گردی کے آگے جھکتے ہوئے اس کے قبضے کو ’’سب کی سلامتی ‘‘کا نام دیا ہے ۔
وہ جس چیز کو سب کی سلامتی کہہ رہا ہے در اصل وہ غنڈوں کی غنڈہ گردی اور قبضہ مافیا کے ناجائز قبضے کی حمایت کرنا ہے ۔
۳:سعودی عرب نے اب تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اوروہ یہ کہتا آیا تھا کہ جب تک اسرائیل سن 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں پر کیے گئےناجائز قبضے سے دستبردار نہیں ہوتا،کسی قسم کے تعلقات نہیں ہوسکتے ۔
لیکن اب سعودی ولی عہد کا یہ تازہ بیان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب
کے درمیان تعلقات بہت آگے نکل چکے ہیں ۔
اٹلانٹک میگزین کو دیے گئے انٹریومیں شہزادہ سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بہت وسیع اور گہرے مفادات وابستہ ہیں ۔
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں اسرائیلی کابینہ نے بھی تصدیق کی تھی کہ ریاض اور تل ابیب کے مابین پس پردہ سفارت کاری کا سلسلہ جاری ہےاورمختلف وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے ۔
ادھر سعودی شہزادے کے اس بیان کے بعد فلسطینیوں کہنا ہے کہ سعودی عرب کو اب سعودی عربیہ کہنے کے بجائے سعودی عبریہ کہنا بہتر ہوگا جو اس وقت پوری طرح اسرائیلی وکیل اور حمایتی بنا بیٹھا ہے
فلسطین میں ہونے والے احتجاج میں سعودی عرب پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور بن سلمان کو بن شیطان اور مملکۃ آل سعودکی جگہ مھلکۃ آل سعود یعنی تباہی پھیلانے والی ریاست کہا جارہا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button