پاکستان

آخر مجھے کس جرم میں مارا؟ ظالم حکمرانوں سے معصوم کا سوال!!

شیعیت نیوز: آج کراچی میں تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی فائرنگ سے امیر علی شہید ہوئے ۔ شہید کا چہرا دیکھا ، آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یا علیؑ یہ آپکی محبت میں ایک اور شیعہ جان سے گیا ۔ پھر صبر آگیا ۔

امیر علی کیساتھ ہی انکا دو سال کا بچہ علی رضا تھا جو شدید زخمی ہوگیا ۔ رضا علی کی تصویر دیکھی ہے جب سے، تب سے صبر نہیں آرہا ۔ پٹیوں میں لپٹا یہ بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ ماں شیلڈ کا پیمپر لگاتی ہے ۔۔ اس بچے کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اور نرم چھوٹے سے کاندھے ۔۔ اس کے نرم بال جنکا لمس کوئی صاحبِ اولاد یا دردمند دل بغیر چھوئے لے سکتا ہے ۔ اس بچے کا چہرہ ایسا ہے کہ دیکھے جائوں اور آنکھیں بے بسی کے آنسوئوں سے سرخ ہوئے جا رہی ہیں ۔۔ میرا جسکا اس بچے سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ حال ہے تو خدا جانے اسکی ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی ؟ شاید وہ اسے دیکھے تو وہی کہے جو علی اصغرؑ کی ماں جناب امِ ربابؑ نے کہا تھا ۔۔ بیٹا میں نہیں جانتی تھی کہ تیری عمر کے بچے بھی نحر کئے جاتے ہیں ۔۔۔ بیٹا کیا تیرے قاتل کی کوئی اولاد نہیں ہے ؟

اس بچے کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہوا ۔ گولیاں نہیں جانتیں کہ آگے شیعہ ہے یا سنی ، ہاں گولیاں چلانے والے ہاتھ جانتے ہیں کہ کسے ، کس جرم میں مارا جا رہا ہے ۔ کہتے ہیں پیاسے علی اصغرؑ پر تیر چلانے والے حرملہ کا ہاتھ ایک پل کیلئے کانپا تھا ، پتہ نہیں علی رضا پر گولیاں چلانے والے کا ہاتھ کانپا ہو گا یا نہیں ؟

متعلقہ مضامین

Back to top button