پاکستان

شہید ڈاکڑ محمد علی نقوی ایک تحریک ایک عزم، ۷ مارچ یوم شہادت

شیعیت نیوز: ڈاکڑ محمد علی نقوی ملت جعفریہ پاکستان کا ایک ایسا فرزند تھا جس نے انقلاب امام زمانہ عج کے ظہور کی راہ ہموار کرنے والوں میں اپنا نام لکھوایا، شہید پاکستانی بیدار طلبہ کی جماعت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ ملت جعفریہ کے دیگر اداروں کے بانی بھی تھے، آپ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے باوز تھے، جس وقت علامہ عارف حسینی کو شہید کیا گیا ڈاکڑ نقوی عالمی شیطان امریکا کے خلاف یوم برائت از مشرکین کی مناسبت سے احتجاج کو منعظم کرنے کے جرم میں آل سعود کی قید میں بند تھے۔

شہید ڈاکڑ محمد علی نقوی کو ۷ مارچ ۱۹۹۵ کو کلینک جاتے ہوئے یتم خانہ چوک لاہور میں کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں نے انکے ساتھی سمیت شہید کردیا تھا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ولد سید امیر حسین نقوی کے خاندان کا سلسلہ امام حضرت علی نقی سے ملتا ہے۔ یہ خاندان سادات تبلیغ پیغام کربلا میں مصروف رہا اور تقریباً تقریباً آج سے ڈیڑھ سو سال قبل شہید ڈاکٹر کے پردادا مدد علی شاہ شرقپور سے وطنہ آکر آباد ہوئے۔ یہ خاندان اپنے تقوٰی اور کردار کی بناء پر عوام الناس میں مقبول ہوا ور پھر ڈاکٹر صاحب کے دادا نے اپنی زندگی کا آغاز علاقہ نواب صاحب میں جہاں آپ کی قبر ہے۔ جبکہ آپ کے والد بزرگوار نے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم دین کے حصول کے لیے نجف کا رخ کیا۔ مختصر یہ کہ سید امیر حسین نقوی نے اپنی زندگی کے آٹھ سال نجف میں حصول علم کے لیے وقف کیے اور باقی زندگی فروغ تعلیمات محمد و آل محمد میں صرَف کئے اور تقریباً پوری زندگی افریقہ، کینیڈا اور کینیا وغیرہ میں گذاری جبکہ خداوند کریم نے آپ کو دو فرزند اور چھ صاحب زادیاں عطا کیں جو تمام کے تمام اپنی مثال آپ ہیں اور ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تو کمال ہی کیا خاندان تو خاندان، قوم کی لاج بھی رکھ لی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی پیدائش: شہی28دستمبر 1952ء کو لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں ایک ایسے فرزند زہرہ نے آنکھ کھولی جو بعد میں بانی بن کر سامنے آیا۔ اس فرزند زہرہ کا نام ملت جعفریہ کے مسیحا علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے محمد علی تجویز کیا اور فخریہ انداز میں فرمایاکہمیری زندگی میں اس نام کے ہر شخص نے ستاروں پہ کمند ڈالے ہیں۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ کے والد نجف اشرف میں مقیم تھے۔ اسی سال واپس آئے اور واپسی پر اہل خانہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف و کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا تو بولنا کربلا میں شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا۔ جینا علی کی صورت مرنا حسین بن کر تقریباً چھ سال تک نجف و کربلا کی فضاﺅں میں پروان چڑھے یوں خوب کربلا والوں کی محبت خون میں رچ بس گئی۔1شہید کی تعلیمی سرگرمیاں: اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی بعد ازاں والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا اور اپنے سینیئر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے کمپالہ میں پاس کیا ۔ بعد از انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج سے کیا اور بعد میں بھی کیا۔اسی دوران اپنی تنظیمی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جبکہ اپنی ابتدائی سرکاری سوس ہسپتال میں کی۔ جبکہ میں بھی کی اور دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ تحصیلِ علم کے دوران چند سرگرمیاں: سینیئر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں اپنے اسکاﺅٹ کی تعلیم حاصل کی اور اس دوران میں اپنے آپ کو بہترین اسکاﺅٹ ثابت کیا۔ دوران تعلیم سینیئر کیمبرج میں آپ ایک اچھے طالبعلم تھے اور نوبت یہاں تک آئی کہ آپ کو کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ آ پ نے ایک کی حیثیت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔ شہید اور کھیل: آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈو کراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی کے قول پر عمل بھی کیا۔ تیراکی بھی سیکھی اور کا اعزاز حاصل کیا اور گھڑسواری اور نشانہ بازی بھی سیکھی۔ آپ کو بچپن ہی سے کا شوق تھا۔ جو آپ نے جمع کیے وہ آج تک محفوظ ہیں۔ جبکہ کتاب پڑھنا بھی آپ کا بہترین مشغلہ تھا۔ جس کا اندازہ اس لائبریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے۔ جہاں ہزارہا کتابیں انگلش، اردو، فارسی اور عربی میں موجود ہیں۔ ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں کہ ان تمام کتابوں کو ڈاکٹر صاحب نے بغور مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شھید کو کس قدر لائبریریز میں دلچسپی تھی اوریہ انہیں بزرگان کی کوششوں کاثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کانیٹ ورک نظر آتا ہے۔شھید اور تنظیم : ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے شعور انسانی کو بیدار کرنے کے لیے ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے۔ اسی دوران آپ کی پڑھائی بھی نظر انداز ہوئی اور نوبت یہاں آن پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش بھی کی۔ شہید کی محنت اور انعام : پس اس فرزند نے والد کی اطاعت کی خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی۔ جن واقعات کو آپ کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر کو 18 گھنٹے بھی پڑھتے دیکھا اور حد یہاں تک کہ رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے اگر نیند غالب آنے لگتی تو پانی سے اپنے آپ کو بیدار کرتے۔ آخر کار محنت رنگ لائی اور اپنے 70% نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ پس ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔ بانی ہونے کا انداز: تنظیمی دور میں فعالیت، میڈیکل کی پڑھائی کے دوران آئی ایس او تنظیم کا باقاعدہ پہلا اجلاس ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اسی دوران تنظیم کا نام آغا علی موسوی کے دست شفقت سے تجویز پایا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب اکثر اوقات دوستوں کو کا مفہوم یوں بیان کرتے علم کیمیاءمیں آئی ایس او پاکستان کا مطلب ایک جیسا ہونا ہے اور شھید کے کزن انکا ایک جملہ یوں نقل کرتے ہیں کہ وہ اکژ کو یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ آئی سو”یعنی مجھے دیکھو ،میرا کردار ، میرے افکار اور میرا اخلاق اہلیبیت کے ماننے والو جیسا ہونا چاہیے اسی دوران کی پہلی کابینہ کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر صاحب کو آفس سیکریٹری منتخب کیا گیا جو کہ آپ کی پسندیدہ شعبہ تھا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تنظیم کا مرکزی آفس جس قدر مستحکم اوریونٹس سے مربوط ہوگا وہ تنظیم اسی قدر ترقی کرے گی۔ کا کامنظر عام پر آنا کاکا تعارف یونیورسٹی میں یوم حسین کے پروگرام سے ہوا۔ جس کا انعقاد پہلی بار پنجاب یونیورسٹی کے سیمینار ہال میں ہوا۔ جس میں تاریخی خطاب جناب مفتی جعفر حسین نے کیا اورجو پروگرام یومِ حسین آج بھی پاکستان کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں جاری وساری ہیں آج یہ پروگرامات کی پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ پہلا تنظیمی پروگرام تھا جس کی بناءپر پہلی بار کو عوامی سطح پر بھر پور کامیابی ملی۔ یوں ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں متعارف ہوئی۔ ک کی نشرواشاعت اور ڈاکٹر صاحب اسی دوران ڈاکٹر صاحب کی سوچ کی بناءپر اور پختہ جذبہ کی بدولت ایک کیلنڈر کی اشاعت ممکن ہوئی۔ جس پر امام حسین کے روضہ کی تصویر تھی اور اس تنظیم کے نصب العین اور مقاصد لوگوں پر واضح کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے جذبات صرف اشاعت کی حد تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ آپ نے اس کی مارکیٹنگ اور فروخت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس کو چشم دید گواہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے کالج کے سائیکل اسٹینڈ پر کھڑے ہو کر کیلنڈر فروخت کرتے تھے۔ اس کیلنڈر کی بناءپر کی خوشبو ملک کی فضاﺅں میں پھیل گئی۔ کا یک ملک گیر تنظیم 1975ءسے 1976 ءمیں ملک بھر میں پھیلی اور اس کا چوتھا سالانہ کنونشن دفتر سے نکل کر پنڈال کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ کا پہلا کنونشن تھا جو جامعة المنتظر لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے کنونشن کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور تمام آنے والے برادران کا والہانہ استقبال کیا اور ان کے سینوں کو کے بیجز سے منور کرتے۔ یہاں تک کہ اس دوران مٰں مختلف برادران سے ملتے اوردوران پروگرام دشواریوں کے بارے میں دریافت کرتے اور ان کے تاثرات کو تحریر کرتے اور مشکلات پر ان سے معذرت چاہتے۔ دن بھر اگر تنظیمی امور میں مصروف رہتے تو رات بھر برادران کے ساتھ خوردونوش کے انتظامات میں مصروف رہتے۔ یہاں تک کہ اگر موقع ملتا تو برتن صاف کرنے میں بھی برادران کا ساتھ دیتے۔ بشکر الحمد للہ آج 28 واں سالانہ کنونشن بھی جامعة المنتظر میں ہو رہا ہے۔ جس کو شھید ڈاکٹر محمدعلی سے منصوب کیا گیا۔اور نا م سفیرا نقلاب تجو یز پایا۔شہید کے بطور مر کز ی صدر: یہ تنظیمی سفر مختلف نشیب و فراز سے گزرتا رہا اور آخر حالات و واقعات اور تنظیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1976 ءسے 1977 ءمیں ڈاکٹر صاحب کو کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔ جب آپ کو بطور مرکزی صدر اسٹیج پر لایا گیا تو آپ اشکبار تھے۔ جس کی وجہ آپ کے اس قول سے واضح ہوتی ہے کہ ” دوستو حلف صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ حلف کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے “ آپ حقیقتاً ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے حلف کو صرف صدارتی مدت کے لیے نہیں بلکہ تمام عمر حلف پر قائم رہے۔ ( میں خدا و رسول اور امام زمانہ۴ کے روبرو اقرار کرتا ہوں ….) اس دوران خاص طور پر اپنے دوستوں کی توجہ خود سازی کی طرف دلائی۔ شہید اپنی موٹر سائیکل پر علماءکرام کو لے کر شہر کے کونے کونے میں درس کے پروگرام میں لے جاتے اور خود بھی بغور درس سنتے اور اھم نکات کو نوٹ کرتے۔ نوجوانوں میں اسلامی فکر پیدا کرتے۔ اپنی صدارت کے دوران اپنے ” امامیہ نیوز بلٹن “ شائع کرنے کی بھی کوشش کی۔ شادی اور تنظیم: مارچ 1971 ئمیں آپ کا نکاح آپ کے تایا سید شبیر حسین نقوی کی صاحبزادی سیدہ کنیز بتول نقوی سے ہوا۔ جو اس دور کے مانے ہوئے باعمل روحانی شخصیت تھے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی زوجہ نیک اخترکی اور ان کی پرورش میں ان کی پھوپھی کا بڑا کردار تھا اور آپ کا نام بھی انہوں نے تجویز کیا جن کی قبر مبارک وادی السلام نجف میں ہے۔ نکاح سے ایک روز قبل آپ کو تاکید کی گئی کہ آپ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم رہیں ورنہ وقت نکاح انہیں لاہور شہر میں ڈھونڈنامشکل ھو جائے گا۔ شہید کے تنظیمی کاموں میں ڈوبے ہونے کا یہ عالم تھا کہ بارات کی روانگی سے تھوڑی دیر پہلے آپ کو پریس سے لایا گیا۔ جہاں آپ تنظیمی پوسٹر چھپوانے میں مصروف تھے۔ تنظیم سے مخلص ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ نے اپنی زوجہ سے پہلی ملاقات کی تو یہ بات واضح کردی کہ ” یہ میری دوسری شادی ہے “ جب زوجہ کافی پریشان ہوئیں تو آپ نے کہا کہ میں پہلی شادی تنظیم سے کر چکا ہوں لہٰذا گھر کوزیادہ وقت نہ دینے کا شکوہ مت کرنا۔ اپنی دونوں شادیوں کو انہوں نے خوب احسن طریقے سے نبھایا۔ فکری ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب بانی ہیں تو زوجہ بانی شعبہ طالبات ہیں۔ اسی بناءپر طالبات کا پہلا مرکزی دفتر ڈاکٹر صاحب کا گھر منتخب ہوا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ آپ کی زوجہ نے یوں سوچا ہوگا! ” اگر آپ سفیر کربلا ہیں تو میں سفیر شام ہوں، آپ حسین کی صدا پر لبیک کہیں اور ورد بنائیں تو میں زینب کی صدا پر لبیک کہتی ہوں اور زینبی خطیبوں کو ورد بناتی ہوں “ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان طلباءو طالبات آپ کے گھر میں پروان چڑھے اور آپ ان کے روحانی والدین ہیں۔ یہیںپر انکی تربیت ہوئی اور یہیں پر منزل کا تعین اور یقینِ

متعلقہ مضامین

Back to top button