مقالہ جات

سقوط دمشق کے لئے امریکی پلان بی ،مشرقی غوطہ میں کیا ہورہا ہے ؟

انسانی خراب صورتحال کے بہانے مشرقی غوطہ میں آخر کس حقیقت کو چھپانے کی کوشش ہورہی ہے ؟
مشرق وسطی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف عرب تجزیہ کارمحمد صادق کے تازہ ترین مضمون کا آغاز اپر کے اسی جملے کرتا ہے کہ آخر اچانک کیا ہوا کہ دمشق مضافات میںمشرقی غوطہ میں موجود دہشتگردوں کیخلاف جاری آپریشن کو لیکر اس قدر عالمی پروپگنڈہ شروع ہوچکا ہے ۔
بات صرف محمد صادق تک محدود نہیں اہم اور سنجیدہ عرب و بعض عالمی زرائع ابلاغ بھی اس اچانک شروع کردہ پروپگنڈہ اور پھر ہنگامی سیکوریٹی کونسل کے اجلاس اور اجلاس میں ہونے والی گفتگو کو لیکر بھی چی میگوئیاں کررہے ہیں کہ آخر کئی کلومیٹر پر پھیلے رقہ اور اہم شہر حلب ،عراق کے موصول اور تکریت صلاح الدین جیسے گنجان آباد علاقوں کے آپریشن میں بھی اس قدر شوشرابہ دیکھائی نہیں دے رہا تھا تو آخر مشرقی غوطے کے اس علاقے میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ اس آپریشن کو روکنے کے لئے ایک بار پھر مصنوعی خبروں تصاویر اور وڈیوز کا استعمال ہونے لگا ہے ۔
واضح رہے کہ مشرقی غوطہ میں اس وقت کم ازکم آٹھ کے قریب مسلح دہشتگرد گروہ موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حصے پر قابض ہے اور ان میں سے دو گروہ آپس میں بھی متحارب ہیں ۔
غوطہ میں ہونے والی زیادہ تر اموات کا سبب بھی غوطہ کے اندر موجود انہی شدت پسند گروہوں کی آپسی کشمکش ہے ،ہیتہ التحریر الشام اور جبھۃ تحریر سوریہ نامی گروہ میں جاری تصادم سے اب تک کئی پچاس سے زائد شدت پسند مارے گئے ہیں جبکہ طرفین کے حامی یا مخالف سویلین عوام میں سے بھی ایک بڑی تعداد ماری جاچکی ہے ۔
معروف فلسطینی تجزیہ کار عبدالباری عطوان لکھتا ہے کہ سیکوریٹی کونسل کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں غوطہ شرقیہ میں بیٹھے ہوئے دہشتگرد گروہوں کو تقسیم کرکیا گیا ہے کہ جس کے مطابق القاعدہ نواز النصرہ فرنٹ اور داعش کیخلاف آپریشن کو جاری رکھنے جبکہ دوسرے دہشتگرد گروہ کہ جنہیں سعودی عرب قطر اور ترکی کی حمایت حاصل ہے ،کیخلاف فائربندی کا کہا گیا ہے ۔
عطوان لکھتا ہے کہ جیش الاسلام نامی دہشتگرد گروپ کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جبکہ ،اخوان المسلمون سے وابستہ فیلق الرحمن نامی گروہ کو قطر اور ترکی کی حمایت حاصل ہے ۔
مذکورہ دونوں گروہ نے سیکوریٹی کونسل کی قرارداد کے فورا بعد ہی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فائربندی کرنا چاہتے ہیں ۔
تو کیا اس سارے ہنگامے کا اصل مقصد غوطہ میں موجود سویلن آبادی کو بچانا ہے ؟ یا پھر اپنے اپنے حمایت یافتہ گروہ کی آخری کھیپ کو بچانا مقصود ہے ؟
محمد صادق سمیت متعدد اہم تجزیہ کاروں اور زمینی حقائق کو قریب سے جاننے والوں کے انکشافات کے مطابق بات اس سے کہیں آگے ہے ۔
الف:محمد صادق الحسینی یورپ کے عسکری زرائع کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ غوطہ میں اس وقت پندرہ سو کے قریب اہم غیر ملکی فوجی آفیسرز اس وقت غوطہ میں موجود ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی بری حالت کی آڑ میں کئے جانے والےاس سارے شورشرابے اور مصنوعی ہنگامہ وہاں پر موجود ان غیر ملکیوں خاص کر امریکی موجودگی کو شلٹر فراہم کرنا ہے
ب: امریکی شام کی حکومت کو گرانے کے لئے ایک بار پھرنئی کوشش کرتے ہوئے پلان بی پر عمل کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے مطابق دارالحکومت دمشق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنا ہے ۔
محمد صادق لکھتے ہیں کہ وہ امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت پر مختلف جوانب سے حملے کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا جاسکے ۔
ان حملوں میں دمشق کے اطراف اور دیگر علاقوں میں کے درمیان رابطوں کو بحال کرنا اور انہیں باقی حصے سے الگ کرکے ایک جغرافیائی چین میں جوڑنا ہے ۔
محمد صادق کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اردن، عراق اور شام کی سرحد تک قریب واقعہ امریکی اڈہ التنف اور دارالحکومت کے اس حصے کے درمیان بھی زمینی رابطہ بحال کرلیں کیونکہ اس وقت مشرقی غوطہ میں موجود شدت پسندوں کی تمام تر امداد اور لوجسٹک سپورٹ وہیں سے ہورہی ہے ۔
محمد صادق مزید لکھتے ہیں کہ اس وقت التنف میں امریکہ،اردن اسرائیل اور برطانیہ کا مشترکہ آپریشن روم موجود ہے جو اس ساری صورتحال کو کنٹرول کررہا ہے ۔
جبکہ مشرقی غوطہ میں اس وقت موجودپندرہ سو غیر ملکی فوجیوں کا تعلق بھی انہی ممالک سے ہے
ان کا کہنا ہے کہ غوطہ کو لیکر اس سارے شور شرابے اور سیکوریٹی کونسل کے اجلاس اور پھر فائربندی کا مقصد مزید مہلت حاصل کرنا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ غوطہ کےایشو پر مصالحتی کوشش کرنے والے مصری عسکری خفیہ اداروں کو امریکی پیغام مل چکا ہے کہ وہ ان کوششوں کو ترک کردے ۔
واضح رہے کہ شام کی حکومت چاہتی تھی کہ مصالحت اور بات چیت کے زریعے سے وہاں موجود سویلین آبادی کو نکالا جائے اور مصری اسی سلسلے میں کوششیں کررہے تھے ۔
اسی اثنا میں شام میں روس کے جدید ترین سوخوئی57 طیارے پہنچے ہیں کہ جو ایکس 51نامی ایٹمی وارہیڈ سے لیس ہیں ان طیاروں کی آمد طاقت کے توازن میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر لیا جاسکتا ہے ۔
یقینا اس بدلتی صورتحال کے لئے مزاحمتی بلاک مکمل طور پر فلسطین تک تیار دیکھائی دیتا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button