مقالہ جات

کوچہ بنی ہاشم سے ڈی آئی خان کی مقتل تک

تحریر:سجاد شاہ

تاریخ اسلام میں اگر دقت سے نگاہ کی جائے تو فقط عصر رسالت و نبوت ہی وہ زمانہ نظر آتا ہے جس میں شیعیان علی علیہ السلام سکھ کا سانس لیتے نظر آتے ہیں ۔کیا امن کا زمانہ ہوگا جب شیعیان علي ع
حضرت سلمان، ابوذر، مقداد،عمار اپنے مولی سے کھل کر اظہار محبت کیا کرتے ہونگے اور معارف اسلام سیکھتے ہونگے۔
زمانہ بدلہ لوگ بدلے یہودیوں کی دیرینہ سازش کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ پہنچا پیغمبر اسلام کی زندگی کے آخری لمحات میں ہی "انه يهجر” کی گستاخیاں سننے کو ملیں۔ اور خود کو رضی اللہ کا مصداق سمجھنے والے "قوموا عني” کا پروانہ لیکر پیغمبر کی کچہری سے نکلے۔
رسول خدا کی رحلت کے فورا بعد تجہیز و تکفین کی بجائے ایمرجنسی صورتحال میں اصل اسلام یعنی خلافت پر دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا کہ جسے بعد ازاں منصوص امر کے مقابلے میں احادیث موضوعہ اور اجماع کے ذریعے اصول دین کے ایک اہم ترین مسئلہ (امامت )کو فروعی مسئلہ بنا کر شرعی حیثیت دے دی گئی۔

اسلام کی اس اہم اصل پر پڑنے والے اس شدید وار کو اور پیغمبر کے بعد سب سے بڑے انحراف کو جس حساسیت سے دختر رسول ص نے محسوس کیا کسی اور نے نہیں ۔۔
رسول کی بیٹی نے اس انحراف کے مقابلے میں ایک لحظہ کے لیے سکوت اختیار نہیں کیا اور روز اول سے ہی اس وقت کے طاغوتوں کو آشکار کرنا اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھا اور اس کیلیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی ۔پسلیاں ٹوٹیں، بازو زخمی ہوا،بالآخر محسن شہید ہوئے مگر اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ انصار سے احتجاج کیا مہاجرین کو جھنجھوڑا ایک ایک کے دروازہ پر جاکر حجت تمام کی ، تاریخی خطبہ فدک سے تمام صحابہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور ولایت کا دفاع کرتے کرتے جوانی کے عالم میں ہی بابا سے ملحق ہو گئیں ۔
امیر المومنین ع اور بی بی کی اس سارے عالم میں مقاومت اور ظلم برداشت کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کی اہم وجہ ان ظالموں کو تاریخ میں ھمیشہ کیلئے ظالم ہی ثبت کرنا تھا ورنہ تلوار اٹھانے کی صورت میں ظالم کامظلوم اور مظلوم کا ظالم بننے کا بہت زیادہ خطرہ تھا بلکہ خود اصل اسلام کا بچنا بھی محال ہو جاتا لہذا ان دو عظیم ھستیوں کی اس حکیمانہ روش نے اسلام کو داخلی اور خارجی طور پر ہمیشہ کیلئے بیمہ کر دیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتا یہ جملہ کہ *”تاریخ کی پہلی دہشتگردی جناب سیدہ کے دروازہ پر ہوئی”* ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکار ہو رہی ہے ۔
11 ھجری مدینہ میں کوچہ بنی ہاشم سے شروع ہونیوالی دھشتگردی آج پاکستان کے ہر شہر،کوچہ و بازار میں آ پہنچی ہے کل دختر رسول نشانہ تھیں تو آج دختر رسول کےنام لیوا، اسکے شوہر کے موالی، اسکے بیٹے کے عزادار ہیں ۔

انہیں شہروں میں سے پاکستان کا ایک شہر ڈی آئی خان ہے کہ جس میں آجکل محبان زہرا س انہیں طاغوتوں کی اولادوں اور ناموس صحابہ کے جھوٹے دعویداروں کے نشانہ پر ہیں ۔
آئے روز لاشوں پہ لاشیں گر رہی ہیں اور ان دہشتگردوں کو آج بھی ویسی ہی آزادی حاصل ہے جیسے مدینہ میں حاصل تھی ۔خیبرپختونخواہ کا طالبان خان نام نہاد تبدیلی کا چمپیئن ان مظلوموں سے ہمدردی اور دلجوئی کی بجائے طالبان کے باپ کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی باتیں کر رہا ہے ۔
پانامہ پر گلے پھاڑنے والا یہ بے حس خان یہاں لگتا گونگا ،بہرا اور اندھا ہو چکا ہے ۔
ہر جلسہ میں ڈیزل ڈیزل کی رٹ لگانے والا لگتا ہے اس مسلہ میں اپنی موت مر چکا ہے۔
ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ کرنیوالا یہ ازدواج خان ایک دو نہیں پورے پانچ سال میں ایک باربھی ان مظلومین سے اظہار ہمدردی کرنے نہیں پہنچ سکا ۔۔۔
اس دوغلے خان سے پہلے تو اس قتل عام کا حساب مانگا جائے اور 2018 کے انتخابات میں کسی بھی ممکنہ حتی جزئی ڈیل کی صورت میں بھی ڈی آئی خان میں گذستہ 5 سالوں میں شیعہ قتل عام کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے۔

جبکہ دوسری طرف ایم ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہ جن کا یہ آبائی علاقہ ہے اور ھم انکے گزشتہ 15 سال سے سیاسی اتحادی بھی ہیں کیا ایم ایم اے میں موجود شیعہ قیادت اس سے اس مسلہ پر احتجاج نہیں کر سکتی؟؟؟؟۔ اگر کیا ہے تو ھمیں بھی مطلع کیا جائے ۔

*کیا مدینہ میں بی بی نے ظلم کے خلاف ایسے ہی احتجاج کیا تھا جیسے آج ہم کر رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟*

جب تک جناب سیدہ کی سیرت کے مطابق ہم ملکر اپنا احتجاج اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکنہ فورم پر ریکارڈ نہیں کرائینگے ھمارا یہ قتل عام نہیں رکے گا۔۔
اور اس سارے معاملے میں شیعہ قائدین کے ساتھ ساتھ ڈیرہ کے مکینوں کا بنیادی کردار ہے کہ وہاں کے سنیوں سول سوسائٹی کو اپنے ساتھ ملا کر ان دشمنان زہرا س کو تنہا کریں اور ایک منظم پالیسی کے تحت پرامن اورمہذب احتجاج کا آغاز کیا جائے تو پھر ڈی آئی خان میں کسی مثبت نتیجہ کی توقع کی جاسکتی ہے اور ایسی ہی صورت میں ملک کے باقی شیعوں سے تعاون کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور یہی کوچہ بنی ہاشم سے ملنے والا درس ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button