مقالہ جات

فتنہ کردستان اور عفرین شہرکی کنفیوژن

شام کےشمالی مغربی حصےپر واقعہ عفرین شہر میں ترک افواج کی بمباری اور گولہ باری کو آج چھٹا دن ہوچکا ہے یوں لگتا ہے کہ ترک افواج کے ہدف کرد جنگجووں کو نشانہ بنانا نہیں اور نہ ہی وہ عفرین شہر تک اپنی پیش قدمی کو محدود رکھنا چاہتے ہیں ۔
لگتا ہے کہ ترک سرحد کے قریب واقعہ یہ شامی کردنشین شہر شام کے سیاسی مستقبل کے نقوش کھینچ رہا ہے ۔
عفرین میں موجود کردوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے دیگر کردوں کی طرح بھاری بھرکم اسلحہ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں امریکیوں کی جانب سے کسی قسم کا اسلحہ دیا گیا تھا ۔
عفرین کے کردوں کے پاس موجود ہلکی نوعیت کا اسلحہ وہ اسلحہ ہے جسے شام کی حکومت نے اپنے علاقوں کی حفاظت کی خاطر دیا تھا کیونکہ یہ کرد نشین علاقہ القاعدہ اور داعش سے لاحق براہ راست خطرے میں تھا ۔
کردوں کے مطابق ماضی میں انہیں داعش اور القاعدہ کے دہشتگرد گروپوں متعدد بار حملوں کا سامنا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ دہشتگرد گروپ ترکی کے اشارے پر اس علاقے سے کردوں کو نکالنا چاہتے تھے ۔
واضح رہے کہ دیگر کرد علاقوں کے برخلاف عفرین شہر کے کردوں اور شام کی سرکاری افواج کے درمیان باوجود اس کے کہ شامی افواج اس شہر کے اطراف و مضافات میں موجود تھیں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں ہوا تھا ۔
جبکہ حسکہ اور شمال مشرق شام کے کردوں کو کہ جنہیں امریکی حمایت اور امداد حاصل تھی نے سرکاری افواج کےخلاف اسلحہ اٹھا یا ہے جبکہ سرکاری افواج مسلسل مشکل وقت میں ان کی مددکرتی رہی ہے خاص کر کہ عین العرب یا کوبانی کے معرکے میں یہ سرکاری افواج کی امداد ہی تھی کہ کرد خود دہشتگردوں سے بچاپائے تھے ۔
عرب زرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت ترک افواج کو باوجود اس کے کہ شام کی حکومت مخالف فری سیرین آرمی کی بھی حمایت حاصل ہے ،سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
خاص کر گھاٹیوں اور ٹیلوں سے ہونے والی گوریلا وار اور حملوں انہیں ترک افواج سخت مشکل میں ڈالا ہوا ہے جبکہ ترک افواج نے حکومت سے اسپیشل فورس کے دستے طلب کئے ہیں ۔
شائد ترک افواج کو اندازہ نہیں تھا کہ عفرین میں ان کا سامنا صرف کسی ایک جنگجو گروپ سے نہیں بلکہ اس شہر کی عوام سے ہوگا کہ جس کے مردوزن دونوں اسلحہ اٹھانے اور جنگ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں ۔
آخری اطلاعات کے مطابق ترک افواج کی پیشقدمی بتارہی ہے کہ وہ عفرین کے ہمسائیہ علاقہ منبج کی جانب بھی بڑھنا چاہتی ہیں جہاں امریکی حمایت یافتہ کرد جنگجو موجود ہیں ۔
ترک افواج کے عفرین میں داخل ہونے سے پہلے ترک حکومت کے بیانات کے مطابق اس نے شام ،ایران اور روس سے اس سلسلے میں ہم آہنگی کی تھی شائد یہی وجہ ہے کہ روس نے اس علاقے سے اپنی افواج اور مشاورین کو ہٹایا پہلے ہی ہٹایا تھا ۔
واضح رہے کہ عفرین میںیہ روس ہی ہے کہ جس نے اپنا سکہ جمایا ہوا تھا جیسے کہ شمالی مشرقی علاقے و منبج میں امریکیوں نے اپنا سکہ جمایا ہوا ہے ۔
تو کیا کہا جاسکتا ہے کہ ترک افواج کا نشانہ امریکی حمایت یافتہ وہ کردجنگجوں ہونگے جو ترکی اور شام دونوں کے لئے مسئلہ ساز ہیں ؟
امریکی بیانات سے بھی یہ بات کسی حدتک واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ اپنے حمایت یافتہ جنگجووں کو لیکر پریشان ہے ،جبکہ اردگان کا کہنا ہے کہ وہ منبج نامی اس علاقے کی جانب بھی پیشقدمی کرینگے کہ جہاں ترک مخالف امریکی حمایت یافتہ کردجنگجوموجود ہیں خواہ ان کا آمنا سامنا امریکی افواج کے ساتھ بھی کیوں نہ ہوجائے ۔
اردگان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد وہ عفرین شہر کو اس کے حقیقی مالکوں کے حوالے کرینگے۔
ادھر عفرین شہر کے کردوں نے شام کی سرکاری وافواج سے مدد کی اپیل بھی کی ہے گرچہ ان کی یہ اپیل قدرے تاخیر سے ضرور ہوئی ہے ۔
عفرین شہر میں روس کے کردار کو لیکر بہت سے افراد کا خیال ہے کہ روس اس مسئلے میں اپنے مفادات کی خاطر اسد حکومت کے ساتھ غداری کررہا ہے ،واضح رہے کہ عفرین سے انخلا کرنے والی روسی افواج گذشتہ سال سے یہاں موجود تھیں ،تو کیا روس اور ترکی کے درمیان کسی قسم کی خفیہ انڈراسٹینڈنگ ہوئی ہے کہ جس میں اسد حکومت کو اعتماد میں نہ لیا گیا ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ عفرین میں روسی افواج کے داخلے کے بعد سے ہی یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ علحیدگی کی تحریک کو ختم کرکے سرکاری افواج کو دعوت دی جائے کہ وہ اس علاقے پر اپنی رٹ قائم کرے ۔
اور ابھی بھی جب ترک افواج نے حملے شروع کردیے ہیں تو ایک بار پھر عفرین شہر کے کردوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ وہ شام کی سالمیت کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں سرکاری افواج ترک جارحیت سے انہیں بچائے ۔۔۔
بعض عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کردوں کو روسی اور امریکی کردار سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ صرف اپنے مفادات کو پہلی ترجیح کے طور پر رکھتے ہیں ،کردوں کو چاہیے کہ وہ جان لیں کہ ان کی اصلی جگہ ان کا اپنا ملک شام کو وطن کے طور پر قبول کرنے میں ہے نہ کہ دوسروں کے سہارے تلاش کرنے میں ۔
لیکن دوسری جانب بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عفرین شہر سے روسی افواج کا انخلا ایک مکمل پلاننگ کے ساتھ انجام دی گئی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔
ان کے مطابق عفرین میں ترک افواج کی موجودگی کا مقصد ان کرد جنگجووں کو نشانہ بنانا ہے کہ جن کو امریکی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ شام کے شمال مشرقی حصے کو ایک مسقتل کرد ریاست بنائے جو یقینی طور پر نہ تو شام کے حق میں ہوگا اور نہ ہی ترکی اسے برداشت کرپائے گا ۔
یہ وجہ ہے کہ ترک افواج کی عفرین میں مداخلت کیخلاف سختی اختیار کرتا شامی حکومت کے لہجے میں نرمی کو واضح طور پر دیکھاجاسکتا ہے ۔
واضح رہے کہ عفرین اور منبج شام کے کردنشین وہ دو علاقے ہیں کہ جہاں شام کی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور اس علاقے میں دوسرے علاقوں کے افراد بغیر اجازت داخل بھی نہیں ہوسکتے ۔
اگر ہم ان تجزیہ کاروں کی رائے کو مان لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عفرین شہر نہ صرف ترکی اور شام کو قریب کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ کرد جنگجووں پر کنٹرول کے بعد شام میں مسلسل ناکامی کا شکار امریکہ کو ایک اور کاری ضرب سہنا ہوگا کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ شام کے شمالی مشرقی علاقوں میں ایک ایسی فورسز تشکیل دے جو شام اورعراق کے سرحدی علاقے کا کنٹرول سنبھالے تاکہ مزاحمتی بلاک کی چین تشکیل ہونے نہ پائے کہ جو تہران ،بغداد ،دمشق اور غزہ و لبنان کو جوڑتی ہے ۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر امریکی حمایت یافتہ کرد افواج کہ جس پر اس وقت امریکہ کا مکمل انحصار ہے شکست کھاجاتی ہیں تو یہ نہ صرف شام اور اس کے اتحادیوں کی ایک اور بڑی کامیابی شمار ہوگی بلکہ مزاحمتی بلاک کہلانے والااتحاد مزید اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے گا ۔
کسی حدتک غیر واضح صورتحال میں سب سے اہم کردار ترکی کا دیکھائی دیتا ہے کہ جس کی پالیسی ہمیشہ مد وجزر کا شکار رہی ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ ترک حکام اور امریکی سیکریٹری خارجہ اور نائب وزیر دفاع کے درمیان ہونے والی بات چیت میں امریکہ نے ترک سرحد کے ساتھ متصل شامی علاقے میں تیس کلومیٹر کے قریب ایک سیکوریٹی زون بنانے کی بات کی تھی اور اس سلسلے میں ترکی خدشات کو بھی دور کیا گیا ہے ۔
اس ساری صورتحال میں شام اور اس کی اتحادی افواج کی ادلب میں القاعدہ دہشتگرد گروہ النصرہ فرنٹ کیخلاف کیا جانے والا کامیاب تازہ تریں آپریشن بھی اہم کردار رکھتا ہے، کہ ماضی میں اس گروہ کو ترک حمایت حاصل رہی ہے۔
ترکی کے لئے عفرین شہر اس لہذا سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ حلب کے شمال مشرقی علاقے میں موجود شیلڈ آف فرات نامی ترک حمایت یافتہ فورسز کے علاقے کو عفرین کے ساتھ متصل کرکے اپنے اثر رسوخ کے علاقوں کو وسعت دے ۔
اگر ترکی اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو شام کےسیاسی حل کی تلاش میں انجام پانے والے مذاکرات میں ترکی عفرین اور منبج میں اپنی افواج اتارنے کے بعد نسبتا بہتر پوزیشن سے بات چیت کرسکتا ہے۔
لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا شام اور اس کے اتحادی ترکی کی اس خواہش کو پورا ہونے دینگے ؟
ماضی میں بھی ترک افواج اس وقت شام کی سرحد کے اندر آسکیں جب اسے شام اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے گرین سگنل مل چکا تھا اور اس وقت بھی یہ بات واضح ہے شام اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ترک افواج کو ملنے والے گرین سگنل کے بعد ہی وہ عفرین میں داخل ہونے کی جرات کرسکیں ہیں ۔
اس ساری صورتحال میں بہت سے ایسے سوالات موجود ہیں جو اب بھی تشنہ شائد ان سوالات کے جوابات گرونڈ کی صورتحال یا طرفین کے بیانات آنے والے دنوں میں واضح کردیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button