مقالہ جات
دھمکی کام کرگئی، عیاشی کے لئے چولستان آنے والا عرب شہزادہ فرار کرگيا
چولستان کے غیور نوجوانوں کی مخالفت کے سبب مقامی انتظامیہ بے بس ہوگئی، عرب شہزادے کو قبل از وقت چولستان سے نکلنا پڑ گيا۔
بتایا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے نائب حکمراں شیخ حمد بن راشد المکتوم جو باضابطہ پرمٹ پر تلور کے شکار کے لئے چولستان آئے تھے، شکار اور اپنے قیام کا پروگرام ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ سرکاری پروٹوکول کے مطابق شکار کے لئے آنے والے عرب شہزادوں کی خدمت کے لئے مقامی بچیوں کو دلہن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
کچھ غیرت مند نوجوانوں نے مقامی انتظامیہ کو دہمکی دی تھی کہ اگر متحدہ عرب امارات کے شہزادے کی خدمت یا رات گزارنے کے لئے مقامی بچیوں کو پیش کیا گیا تھا نہ تو شہزادے کو زندہ چھوڑا جائے گا نہ ہی مقامی انتظامیہ کا افسر یا سکورٹی اہلکار اپنے گھر زندہ بچ کر واپس جاسکے گا۔
اگرچہ انتظامیہ نے شيخ حمد بن راشد المکتوم سے چھپايا تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک افسر کے مشورے پر شيخ حمد بن راشد المکتوم اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس روانہ ہوگئے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پراس سوال کے جواب میں کہ عرب شہزادے پاکستان میں ہی تلور کیوں شکار کے لئے آتے ہیں کہا کہ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان کو کسی جگہ ایسا پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔
عرب شہزادے یہاں کیا کیا گل کھلاتے ہیں اور کس بے شرمی کے ساتھ ہماری بہنوں، بیٹیوں کی عزت کے کھلواڑ کرتے ہیں اس کا بھانڈہ ان کی سیکورٹی پر مامور پاکستانی آرمی کا ایک میجر پہلے پھوڑ چکا ہے۔
تلور کا شکار اور کنواری بچیاں؟
یہ کہانی آپ کو آرمی کے ایک ریٹائرڈ میجر کے زبانی سناتے ہیں،،” مجھے دو لاکھ ماہانہ تنخواہ پر سکیوریٹی آفیسر کی ذمہ داری سونپی گئی ، میری ڈیوٹی شہزادوں کے ساتھ ہر لمحہ رہنا،ان کو نظر میں رکھنا اور بحفاظت ائیر پورٹ پہچانا تھا۔میں دیکھا کہ عرب شہزادے شکار کے لئے ہمیشہ اکیلے آتے ہیں۔ میں سوچتا،ان کے ساتھ ان کی فیمیلی یا بیویاں نہیں ّآتیں..؟کیا ان کو تلور کا گوشت پسند نہیں ؟لیکن اس راز کا مجھے بہت جلد پتہ چل گیا اور میری غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اپنی اس ملازمت کو جاری رکھوں،بوجوہ میں نے فورا استعفیٰ دے دیا، انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہو ئے بتایا کہ ان شہزادوں کے لئے خصوصی رہائش گاہوں کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے،یہ دوپہر کو شکار شروع کرتے ہیں ،شکار میں باز، شکرے،کتّے اور گھوڑے استعمال ہوتے ہیں ،شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، پھر ہانڈی، کڑھائی اور سٹیم روسٹ کے ساتھ بیسیوں لوازمات کے ساتھ عشاء کے نماز سے پہلے کھانا کھایاجاتا ہے۔
پھر یہ شہزادے اپنے رہائش گاہوں میں چلے جاتے ہیں جہاں حکومتِ پاکستان،مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی ہوس پوری کرنے کے لئے کم عمر کنواری لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں،عمر بارہ سال سے سولہ سال کے درمیان اور کنواری ہوں۔میجر صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ اندر کے حالات تو میں نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی چڑیا کے ساتھ کرتا ہے کیونکہ میں نے ایسی آوازیں سنی ہیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں۔”
آج 16دسمبر کا دن ہے ،سقوطِ ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے منے معصوم بچوں کا دکھ خون کے آنسو رلا ہی رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آج ہی کے دن مختلف اخبارات میں چھپنے والی اس خبر نے بھی ہمیں دکھی بنا دیا ،جس میں لکھا ہے کہ” پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے قطر کے شہزادے خلیفہ بن عماد بن عبداللہ ملک کے مختلف علاقوں میں شکار کھیلنے کے بعد لاہور پہنچ گئے۔ شکار کا شوق پورا کرنے کے بعد قطری شہزادے نے لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کی اور پاکستان میں شکار کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر وزیر اعلیٰ کا شکریہ ادا کیا ”’میں سوچتا رہا،اگر ہمارے حکمرانوں کا یہی حال رہا تو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی عزّت کیا خاک ہو گی؟ قومی زندگی کا وقار تو خود داری ،غیرت و حمیت پر مبنی کارکردگی سے مشروط ہے ۔افسوس صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے انفرادی مفادات کے مقابلے میں قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر قومی شان و شوکت کے بلند و بالا مینار کو زمین بوس کر دیا ہے۔۔