مقالہ جات

شھید اعتزاز حسن کی شجاعت کو سلام

ھنگوکے علاقے ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والے اعتزاز حسن 6 جنوری کی صبح آٹھ بجے اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ ا سکول جارہا تھا کہ اسے راستے میں ایک اجنبی شخص اپنے سکول کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیااعتزاز نے بھانپ لیا کہ جو شخص اس کے اسکول کی طرف بڑھ رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک دہشتگرد ہے، اس نے اپنے دیگر ساتھیوں سے کہا کہ یہ شخص دہشتگرد ہے جو ہمارے اسکول کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس وقت اسکول کے اندر اسمبلی جاری تھی، میڈیا کے مطابق 800 کے لگ بھگ طلبہ اسمبلی میں موجود تھے، اعتزاز نے اپنے دیگر ساتھیوں سے کہا کہ آپ رکیں میں اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں، ساتھیوں نے منع کیا کہ اعتزاز مت جاو، یہ دہشتگرد ہے جو تمہیں بھی مار دیگا، لیکن جب جذبہ دیگر ساتھیوں اور اساتذہ کی زندگیوں کو بچانا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اعتزاز کے قدم ڈگمگا جاتے یا اس کے ارادے میں لغزش آجاتی، اعتزاز نے تیزی کیساتھ جاکراس خودکش بمبار کو دبوچ لیا، جب خودکش بمبار نے اعتزاز کے ہاتھوں اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا اور سوچ لیا کہ وہ اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتا تواس نے خود کو وہیں پر ہی اڑا لیا، یوں اس دھماکہ میں اعتزاز شہید ہوگیا۔اس موضوع پرپاکستانی فوج کے سابق ترجمان ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی کیا کہتے ہیں۔

انٹرویو سننے کیلئے کلک کریں۔

ھنگوکے علاقے ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے طالبعلم اعتزاز حسن نے بے مثال قربانی پیش کرکے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا لیا۔ 6 جنوری کی صبح کو خودکش بمبار کو اسکول کے گیٹ پر روکنے والے اعتزاز کے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ وہ جس کام کو آج کرنے جا رہا ہے، اسے اس کے بدلےاس حد تک پذیرائی ملے گی کہ پاکستان کیا، دنیا بھر میں اس کی عظیم قربانی کے چرچے سنے جائیں گے اور خراج تحسین پیش کیا جائیگا۔ ہنگو کے اس 15سالہ نوجوان نے جرات و دلیری کی وہ مثال قائم کر دی کہ آج پاکستان کے ہراسکول میں اعتزاز تجھے سلام کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس انداز میں اس عظیم فرزند کو جو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی اعتزاز کی قربانی کوخراج تحسین پیش کرنے کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس طالب علم کو نشانِ حیدر دینے کا مطالبہ کیا گیا، یوں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اعتزاز حسن کو ستارہ شجاعت دینے کی سفارش کی جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن نے اعتزاز حسن کو بہادری کے عالمی ایوارڈ سے نوازا ۔ انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن ڈاکٹر شاہد محمد نے اعتزاز حسن شہید کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی، اس موقع پر انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے اہلکاروں نے اعتزاز کے والد مجاہد علی سے بھی تعزیت کی اور انہیں ان کے بیٹے کی شجاعت پر بہادری کے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے ہنگو میں خودکش بمبار کو روک کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے اعتزاز حسن شھید کی قبر پر حاضری دی، فاتحہ پڑھی اور قبر پر پھول چڑھائے ۔ اس موقع پر علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ شہید اعتزاز نے جرات و بہادری کی ایسی مثال قائم کی جو پاکستان میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ شہید اعتزاز نے دہشتگردی کو اپنے حوصلے سے شکست دی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر حوصلے اور جرات کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا جائے تو فتح ہماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہید کی عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ قوم کے باہمت بیٹے نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہنگو میں اپنی زندگی قربان کرنے والے اعتزاز حسن کو ہیرو قرار دیتے ہوئے اُن کی قربانی کا اعتراف کیا ہے۔انہوں نے وزراء اور وزیر اعلیٰ کے وقت پر نہ پہنچنے پر بھی افسوس کا اظہار کیا عمران خان نے اعتزاز کے اہل خانہ کی مکمل کفالت کا اعلان بھی کیا۔

پاکستان کےآرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ہنگو کے شہید طالب علم نے بہادری اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی۔ پوری قوم کو اعتزاز حسن پر فخر ہے۔

خودکش حملہ ناکام بناتے ہوئے شہادت کا رتبہ پانے والے اعتزاز حسن کی قبر پر آرمی چیف، کور کمانڈر، اور آئی جی ایف ایس کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی۔ قومی ہیرو کی قبر پر شہریوں کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی۔ قومی ہیرو کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ کے لئے نامزد کر دیا گیا۔

ملالہ یوسفزئی نے بھی بہادر نوجوان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعتزاز کی قربانی پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے امید کی کرن ثابت ہو گی۔ ملالہ نے اعتزاز کے خاندان کیلئے پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کے کمسن شھید طالبعلم اعتزاز حسن جس نے ایک ایسے دھشتگرد خودکش حملہ آورکواسکول کے طلباء کےمابین جا کر خودکش حملے سے روکنے اور اس کی کوشش کو اپنی جان نچھاور کرنے سے نا کام بنانے سے ان قوتوں کو یہ درس دیا کہ دھشتگردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس قسم کے دھشتگرد دوسروں کے آلہ کار ہیں اوروہ ان کے مذموم مقاصد وعزائم کی تکمیل کرتے ہیں جو مسلمانوں کے مابین اختلافات پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خون کو بہانا جائز سمجھتے ہیں۔

شھید اعتزاز حسن نے یہ جانتے ہوئے کہ خودکش حملہ آور اپنے آپ کو اڑا دے گا اور اس کی جان چلی جائے گی لیکن اس کی پرواہ نہیں کی اور اپنے عزم و حوصلے سے سیرت حضرت علی اکبر(ع) پر چلتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔ اس لئے کہ نوجوانوں کا آئیڈیل میدان کربلا کا وہ نوجوان ہے جنہوں نے کہا تھا کہ بابا جان اگر ہم حق پر ہیں تو کوئی پرواہ نہیں کہ موت ہم پرآ پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں۔

شھید اعتزاز حسن کی طرح ایک 13سالہ نوجوان ایران میں بھی تھا جنہوں نے اپنی جوانی اپنی قوم پر قربان کردی۔ اور ایران پر مسلط کردہ عراقی جنگ کے دوران دشمن کے ایک ٹینک کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ٹینک کے سامنے لیٹ کر اپنے آپ کو اڑا دیا جس سے دشمن کا ٹینک تباہ ہوا اور محمد حسین فہمیدہ شھید ہو گئے۔

واقعا جو لوگ شہادت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں وہی کامیاب ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے پیاروں کو اسلام، ملک اور قوم کیلئے جب پیش کرتے ہیں تو پھر یہ نہيں کہتے کہ مجھے نقصان ہوا، میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوا۔ بلکہ شھید اعتزاز حسن کے والد کی طرح یہ کہتے ہیں کہ مجھے تسلیت پیش نہ کریں بلکہ مجھے مبارکباد دیں۔ در اصل یہ وہی سوچ اور فکرہے جو ہم نے کربلا والوں سے لی اور یہ کربلا والوں کا ہی درس ہے کہ ظالم کے سامنے ڈٹ جاو اور عزت کی زندگی کرنے کا ڈھنگ سیکھ لو۔ آج جب ہم پاکستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ ایک سازش کے تحت اس ملک کو دھشتگردی اور فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے اور اس قسم کی سازشوں کو نا کام بنانے کیلئے شھید اعتزازحسن کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ راستہ ہے جو جہالت کی تاریکی میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو چراغ ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔ اور اسی راہ پر چلتے ہوئے ہی مسلمان اپنی کھوئی ہوئی حیثیت اور مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ استعمار کی یہ سازش اور کوشش ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کو دست بہ گریبان کر کے ایک جانب مسلمانوں کی طاقت کو کم کرے اور دوسری جانب مسلمانوں کو ان اھداف ومقاصد کی تکمیل سے دور رکھے جو اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

قوم اور وطن کی محبت سے سرشار اعتزاز حسن کو دنیا کا اور قوم کا سلام ، قوم کے اس بہادر سپوت نے اپنی زندگی قربان کر کے اپنے اسکول میں موجود سیکڑوں بچوں کی زندگی بچا لی۔ پندرہ سال کی عمر میں اعتزاز حسن نے اپنا آج دوسروں کے کل کے لیے قربان کر دیا۔ اعتزاز حسن پوری قوم کا ہیرو ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button