مقالہ جات

ایران کے موجودہ حالات پر تبصرہ

تحریر: سید میثم ہمدانی
Facebook: SyedMeesamHamadani
Twitter : @MeesamHamedani

دشمن درحقیقت ایسے خناس شیطان کی مانند ہے کہ جو اپنے غلط کام سے مایوس نہیں ہوتا اور ہر دفعہ ناکامی کے بعد دوبارہ نت نئے انداز میں اپنی کوشش کو جاری رکھتا ہے۔ موجودہ لہر میں پچھلے سالوں کی نسبت کچھ فرق ضرور موجود ہے۔ گذشتہ سالوں میں دشمن کی زیادہ توجہ ایران کے دارالحکومت تہران پر متمرکز رہی ہے۔ لیکن اس سال ہونیوالی ان کوششوں میں جو بات واضح نظر آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دشمن اپنی فتنہ انگیزی کو پورے ایران میں پھیلانا چاہتا ہے۔ مشہد سے مہنگائی کیخلاف شروع ہونیوالے مظاہروں کا استعمال کرتے ہوئے انقلاب مخالف تحریک نے غالباً ایران کے دور افتادہ شہروں کو اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کیا ہے۔

ایران کے کچھ بڑے شہروں میں حال ہی میں احتجاجی مظاہروں کا ایک سلسلہ چل رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے لیکن بعض جگہوں پر متشدد مظاہروں کا یہ سلسلہ کچھ دنوں پہلے ایران کے ایک بڑے شہر مشہد مقدس میں چند لوگوں کی جانب سے مہنگائی کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے سے شروع ہوا۔ مہنگائی کے خلاف مظاہرے چند ہی دنوں میں ایران کے مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ اس وقت شروع ہوئے جب ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بات کی۔ پیٹرول کی موجودہ قیمت ایرانی کرنسی کے مطابق ایک ہزار تومان فی لیٹر ہے جبکہ موجودہ حکومت کا ارادہ تھا کہ اس کو بڑھا کر ایک ہزار پانچ سو تومان کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ استعمال کی چیزوں میں بھی مہنگائی کی گئی اور خصوصاً انڈوں کی قیمت تو دگنا ہوگئی۔ ایران میں نئے مالی سال کیلئے بجٹ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ ان تمام مسائل کے مدنظر کچھ شہروں میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ اگرچہ ان مظاہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک نہیں ہے لیکن ان کی خاص بات یہ ہے کہ کچھ موقع پرست عناصر نے اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت مظاہروں کو متشدد بنانے کی کوشش شروع کر دی اور پھر یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہ متشدد مظاہرے رات کے پہر مختلف شہروں میں انجام پاتے ہیں اور چھوٹے پیمانے پر کچھ افراد تخریبی کارروائیاں انجام دے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ایرانی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ آج سے ایسے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔

اس صورتحال کو بہتر طور پر جاننے کیلئے کچھ باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہرے اتفاق سے ایسی تاریخوں میں انجام پائے ہیں کہ جو ایرانی سال 88 میں ہونے والی ایک بڑی فتنہ آرائی کی سالگرہ کی تاریخ تھی۔ اس سال جب حسین موسوی اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ملک میں شدید مظاہرے اور متشدد تخریبی کارروائیاں شروع کر دی گئیں، جن کا مرکز ایران کا دارالحکومت تہران تھا۔ چند ہفتوں پر مشتمل ان مظاہروں کا اختتام ایرانی تاریخ 9 دی 1388 (30 دسمبر 2009ء) کی تاریخی عوامی ریلی پر ہوا، جب لاکھوں کی تعداد میں عام عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فتنہ پرست عناصر کی شدید مذمت کی۔ اس عوامی ریلی کے سبب ملک میں جاری تخریبی کارروائیاں دم توڑ گئیں اور یوں فتنہ پرست انقلاب مخالف عناصر کی یہ عظیم سازش اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

دوسری بات جس کی طرف اشارہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ یہ انقلاب اسلامی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس قسم کی تخریبی کارروائیوں متعدد مرتبہ مختلف بہانوں کے ذریعے عوام کو حکومت اور انقلاب کے مقابلے میں سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایرانی سال 1377 میں تہران یونیورسٹی میں پیش آنے والے ایک واقعہ کے بعد متشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا، پھر 1388 میں انتخابات کے بعد سبز رنگ کا مخملی فتنہ انجام پایا اور اب 1396 میں ایک نئی لہر کا آغاز کیا گیا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس قسم کی کارروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان حرکتوں کے پیچھے منظم قوتوں کا ہاتھ موجود ہے، جو عام عوام کو اسلامی انقلاب کے مقابلے میں لانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن ان کی یہ سازش اپنے انجام کو نہیں پہنچے گی۔

دشمن درحقیقت ایسے خناس شیطان کی مانند ہے کہ جو اپنے غلط کام سے مایوس نہیں ہوتا اور ہر دفعہ ناکامی کے بعد دوبارہ نت نئے انداز میں اپنی کوشش کو جاری رکھتا ہے۔ موجودہ لہر میں پچھلے سالوں کی نسبت کچھ فرق ضرور موجود ہے۔ گذشتہ سالوں میں دشمن کی زیادہ توجہ ایران کے دارالحکومت تہران پر متمرکز رہی ہے۔ لیکن اس سال ہونے والی ان کوششوں میں جو بات واضح نظر آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دشمن اپنی فتنہ انگیزی کو پورے ایران میں پھیلانا چاہتا ہے۔ مشہد سے شروع ہونے والے مہنگائی کے خلاف مظاہروں کا استعمال کرتے ہوئے انقلاب مخالف تحریک نے غالباً ایران کے دور افتادہ شہروں کو اپنے ایجنڈے کے لئے استعمال کیا ہے۔ سب سے زیادہ پرتشدد کارروائیاں ایران کے عراق بارڈر پر موجود کرمانشاہ کے صوبہ، اسی طرح صوبہ خوزستان کے مختلف علاقوں، لرستان صوبے کے علاقے درود، صوبہ گیلان کے شہر رشت وغیرہ میںوقوع پذیر ہوئی ہیں۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ فتنہ گر عناصر کو تہران اور ایران کے بڑے شہروں میں اپنے منصوبے ناکام نظر آئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایران میں لسانی اور فرقہ واریت کے تعصب کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھائیں۔

میشہ کی طرح جو چیز واضح طور پر نظر آرہی ہے، وہ عوام اور فتنہ گر عناصر کے درمیان خط فاصل ہے۔ اس سال ہونے والی ان تخریبی کارروائیوں میں ایران کی عوام نے شروع ہی سے اس سازش کو بھانپ لیا ہے۔ اس بات کا انداہ بخوبی ان ویڈیوز کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں اکثر تعداد بگڑے ہوئے ان نوجوانوں کی نظر آتی ہے کہ جو چند سو کے ٹولوں میں مختلف شہروں میں چند گھنٹوں کیلئے ظاہر ہوتے ہیں اور مغربی میڈیا کیلئے کوریج فراہم کرنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ اس سازش کے منظم ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ روز تہران سے پکڑے جانے والے ایک نوجوان کے موبائل سے ایسا پیغام ملا ہے، جس میں اس کو ضروری ہدایات دی گئی تھیں۔ اس پیغام میں اس نوجوان کیلئے لکھا گیا تھا کہ وہ ہجوم سے دور نہ ہو، تنگ اور تنہا گلیوں کی طرف نہ جائے، اپنی ٹیم کے افراد کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اس پیغام میں ایک لڑکی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ جب ہجوم سے دور ہوئی تو گرفتار کر لی گئی اور اس کے موبائل کا ڈیٹا بھی لیک ہوگیا، لہذا س سے کہا گیا کہ وہ ہجوم کے ساتھ رہے۔

اس کمپین میں سوشل میڈیا پر موجود انقلاب مخالف گروپس کا رول بھی لیڈنگ ہے۔ مثال کے طور ایک گروپ میں یوں ہدایات دی جا رہی ہیں کہ جب بھی مظاہرے اور کارروائیوں کیلئے نکلیں تو اپنے موبائل فون کو محفوظ مقامات پر رکھ کر جائیں، یا پھر ایروپلین موڈ لگائیں، تاکہ آپ کی ریکی نہ ہوسکے وغیرہ وغیرہ۔ الغرض دشمن اپنی خبیث سازش سےباز آنے والا نہیں ہے۔ امریکی پاگل صدر ٹرمپ کچھ ہی دنوں میں ایران میں ہونے والے مظاہروں کے ساتھ دو مرتبہ یکجہتی کا اعلان کرچکا ہے، جبکہ صیہونی حکومت کے مشیروں نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ وہ علی الاعلان ان مظاہروں کی حمایت نہ کریں، چونکہ اس طرح ان لوگوں کو ایرانی عوام میں پذیرائی نہیں ملے گی۔ اگرچہ اس طرح کی کارروائیاں کچھ عرصے کیلئے انقلاب کیلئے دردمند افراد کو پریشان کر دیتی ہیں، لیکن یہ امریکہ اور صیہونی حکومت جیسی شیطانی قوتوں کی بھول ہے کہ وہ اس ذریعے سے انقلاب کو نقصان پہنچا سکیں گیں۔ اس طرح کے کھیل تماشے کے ذریعے وہ چند ایسے بے راہ روی کے شکار نوجوانوں کو تو گمراہ کرسکتے ہیں کہ جن کو ہر روز یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بس اب انقلاب کی شکست نزدیک ہے، لیکن وہ ایرانی عظیم قوم کو شکست نہیں دے سکتے۔

کیوں؟ چونکہ ایرانی قوم ہوسکتا ہے بعض سختیوں کی وجہ سے، مہنگائی کی وجہ سے، کچھ مغرب پرست پالیسیوں کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہو، گلہ مند ہو، لیکن یہ قوم اپنے نظام اور ولایت فقیہ کے سلسلے کو دل سے قبول کرتی ہے، اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔ ایران کے خلاف مسلط کردہ 8 سالہ صدام جنگ کے دوران ایرانی قوم نے لاکھوں شہداء کا نذرانہ پیش کیا۔ کیا ان شہداء کے وارث ایسے نظام کو جس کو انہوں نے اپنے پیاروں کے خون سے سیراب کیا ہو، اپنے ہاتھ سے گنوا دیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ ہاں ہوسکتا ہے کہ کہا جائے کہ یہ پرانی بات ہے، صدام دور کی جنگ کا زمانہ گذر کیا۔ تو ایسی صورتحال میں ہمیں دور حاضر میں ایک اور نمونہ نظر آتا ہے۔ ہمارے اس موجودہ دور میں جب داعش جیسی آفت ایران کے امن و امان اور اس سے بڑھ کر اسلامی اقدار اور ملت تشیع کے شعائر یعنی حرم سیدہ زینب سلام اللہ علیہا، دمشق، کربلا، نجف کے مقامات مقدسہ کیلئے خطرہ بن کر ظاہر ہوئی تو پھر ہم نے دیکھا کہ ایران کی بہادر قوم نے ہزاروں نوجوانوں کی قربانی دے کر اس بین الاقوامی فتنے کو ناکام بنا دیا۔ اس راستے میں دیگر اقوام کے علاوہ صرف ایرانی شہداء کی تعداد ہزاروں افراد پر مشتمل ہے۔ ان ہزاروں شہداء کے ساتھ ساتھ کئی ہزار ان کے ہم رزم مجاہد بھی ہیں، جو اب تک جان بکف ان شیطانی قوتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آیا ان شہداء کے وارث ایسے فتنہ گر جرثوموں کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ اس مقدس نظام کے خلاف کسی سازش کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکیں کہ جس کی بنیادوں میں ان کے پیاروں کا لہو موجود ہے۔؟ مجھے انہی دنوں ایرانی سوشل میڈیا پر ایک جملہ دیکھنے کو ملا کہ جس نے توجہ کو اپنی طرف جذب کر لیا، اس کا مفہوم یہ تھا کہ: "ہم وہ قوم ہیں، جس نے شام کے پرچم کو سعودی عرب کے حلق سے نکال کر شامی قوم کے حوالے کر دیا ہے تو کیا دشمن یہ سوچتا ہے کہ وہ ہمارے ہی ملک میں چند جرثوموں کے ذریعے ایران کے مقدس پرچم کو سرنگون کرسکے گا، یہ اس کی بھول ہے۔”

متعلقہ مضامین

Back to top button