مقالہ جات

جرمنی کی ایک مفکرہ خاتون ماری شیمل کی قبر پر حضرت علی علیہ السلام کا قول درج ھے …..وجہ جانییے

ماری شیمل کا تعلق ان مفکرین سے ہے کہ جنہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی شان میں متعدد کتابیں ، تالیف یا ترجمہ کی ہیں ۔

 

۔ مفکرین مستشرق زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو مغرضانہ، یا شبہات پر انگلی رکھ کر یا شبہ سازی کی نیت سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔لیکن ان کے درمیان چند گنے چنے افراد ہیں کہ جو تحقیق اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں اور اس راہ میں اچھے محصولات ان کے ہاتھ لگتے ہیں یہاں تک کہ وہ دنیائے اسلام کے لیے بھی مفید واقع ہوتے ہیں ۔

 

محترمہ آنہ ماری شیمل وہ مستشرق خاتون ہے جس نے تحقیقی انداز میں اسلامی مطالعات کی دنیا میں قدم رکھا ، اور اس راہ میں بے انتہا علمی گوہر پارے اس کے ہاتھ لگے ۔ شیمل کی زندگی میں دلچسپ نکتہ اس کی خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آنحضور کے اہل بیت علیہم صلوات اللہ سے عقیدت ہے اور اس راہ میں اس نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں یا بہت سارے ترجمے کیے ہیں سلمان رشدی کے الزامات کے مقابلے میں جو اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا تھا وہ اس زمانے میں زباںزد ہر خاص و عام ہوا یہاں تک کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے ان پر شدید حملے کیے،۔ اس بنا پر جو لوگ اس کو پہچانتے تھے وہ اس بات سے واقف تھے کہ وہ جانتے تھے کہ شیمل کو خاندان وحی سےعقیدت ہے، یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر کے پتھر پر حضرت علی علیہ السلام کا ایک قول لکھ کر لگایا گیا ۔

 

شیمل کی ولادت اپریل ۱۹۲۲ میں جرمنی کے شہر ارفورت میں ہوئی تھی اور اس نے ادبیات اور اشعار سے سرشار ماحول میں تربیت پائی ۔ ۱۵ سال کی عمر میں اس نے عربی زبان سیکھی ۔ اور ۱۹۴۶ میں ماربورگ یونیورسٹی میں استادی کے درجے پر فائز ہو گئی ۔ لیکن چونکہ وہ ایک جوان لڑکی تھی لہذا ماربورگ یونیورسٹی کو چھوڑ کر آنکارا یونیورسٹی میں ترکی زبان میں تدریس شروع کی ۱۹۳۹ کے موسم خزاں میں جب وہ ۱۷ سال کی تھی زبان و ادبیات عرب اور علوم اسلامی کے شعبے میں برلین یونیورسٹی میں اس نے تحصیلات کا آغاز کیا ۔

 

اکتوبر ۱۹۴۱، میں اس نے اپنا پی ایچ ڈی کا کام ، مصر در اواخر قرون وسطی ، کے موضوع کے تحت مکمل کیا ۔ باوجودیکہ اس کی عمر ۱۹ سال سے زیادہ نہیں تھی برلین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے میں کامیاب ہو گئی ۔ آنہ ماری شیمل نے اپنی دوسری پی ایچ ڈی ، سال ۱۹۵۱ میں ،حوزہء تاریخ و ادیان سے ، عشق عرفانی در اسلام کے موضوع پر ایک رسالہ لکھ کر حاصل کی ، اور سال ۱۹۶۱ میں اس کا بن یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا ۔ اس نے ہارورڈ اور کمبریج کے علاوہ ترکی ،ایران ، پاکستان اور افغانستان کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریس کی ۔ پاکستان کی مقتول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس کی شاگرد تھی ۔

 

شیمل نے اپنی علمی زندگی میں بہت سارے انعامات حاصل کیے ۔ صلح کا سالانہ انعام کہ جو فرانکفورٹ کی کتابوں کی بین الاقوامی نمایشگاہ سے ہر سال جرمنی کے کسی مفکر یا دانشمند کو دیا جاتا ہے وہ سال ۱۹۹۵ میں شیمل کو دیا گیا ۔

 

سلمان رشدی کے افکار کی رد ،

 

ٹی وی کا ایک انٹرویو لینے والا اس انعام کے ملنے کے بعد شیمل کے پاس آیا اور ان سے سلمان رشدی کے بارے میں سوالات کیے ۔ شیمل نے اس سوال کے جواب میں بہادری کے ساتھ دنیائے اسلام کا ساتھ دیا ، جب کہ یورپ کی فضا میں اس مسئلے کو کسی اور زاویے سے دیکھا جا رہا تھا ۔ اس نے سلمان رشدی کی تحریر کو ایک اوچھی تحریر سے تعبیر کیا کہ جو مغرب کو خوش کرنے کے لیے لکھی گئی تھی ۔ شیمل نے کہا کہ سلمان رشدی نے اپنی اس منحوس کتاب کے ذریعے مسلمانوں کے اور خود اس کے احساسات کو چوٹ پہنچائی ہے ۔ اسی انٹرویو کے بعد سلمان رشدی کا دفاع کرنے والوں نے اس انصاف پسند خاتون کے خلاف تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے ۔

 

۱۱ مئی ۱۹۹۵ میں لودگر لوتکھاوس نے روزنامہ ، SUED – DEUTSCHE ZEITUNG میں کچھ مقالوں میں اس مشرق شناس خاتون پر سخت حملے کیے ۔ اس کے بعد ھامبورگ یونیورسٹی کے استاد گیرنوٹ روتہ نے ۱۲ مئی ۱۹۹۵ کو روزنامہ ، DIE ZEITمیں مقالے لکھ کر شیمل سے صلح کے انعام کو واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا ۔ اس نے مجلہ اشپیگل کو اٹرویو دیتے ہوئے کہ جو ۲۲ مئ ۱۹۹۵ کو منتشر ہوا تھا اظہار کیا : میں نے اسی کتابیں لکھ کر کوشش کی ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر یورپ کے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ سکوں ، اور میں اس کو ایک سیاسی سرگرمی قرار دیتا تھا ۔

 

شیمل کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت ،

 

اس نے اسلام کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی ہیں ، اور سال ۲۰۰۲ میں اس کی ایک آخری تحریر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخصوص تھی ۔شیمل نے اس کتاب کا نام ، کلمہ شہادت سے اقتباس کرتے ہوئے «و أنّ محمداً رسول‌الله» رکھا اور کتاب کے شروع میں ایک ھندو شاعر کی اردو زبان میں رباعی لکھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں کافر ہوں یا مومن اس کے بارے میں صرف خدا ہی جانتا ہے لیکن میں نیک بندوں کی طرح خود کو شہر کے عظیم آقا محمد رسول اللہ پر قربان کرنا چاہتا ہوں ، شیمل پر ان افکار کی وجہ سے بہت حملے کیے گئے مگر وہ جواب میں یہی کہتی تھی کہ میں ان کو دوست رکھتی ہوں ۔

 

آخر کار ۲۶ جنوری ۲۰۰۳ میں شیمل نے دنیا سے آنکھیں بند کر لیں ، چنانچہ اس کی قبر کے پتھر پر امیر المومنین علی علیہ السلام کا ایک قول لکھا گیا ھے :” النَّاسِ نِیَامٌ فَإِذَا مَاتُوا انْتَبَهُوا”لوگ سوئے ہوئے ہیں ، جب مریں گے تو بیدار ہو جائیں گے ۔ ( شکریہ کےساتھ، افشاں ظفر از زبان اردو۔ تحقیق و تنقید )
3e0b3d41-86b3-4784-b6cb-2c4492e8ced0.jpg
d1ec162f-c960-4d43-80ff-8495ff162ad4.jpg

متعلقہ مضامین

Back to top button