پاکستان

تعلیمی اداروں میں دہشتگردی انصار الشریعہ ، حزب التحریر اور اسلامی جمعیت طلبہ

شیعیت نیوز: تعلمی اداروں میں دہشتگردوں کی موجودگی کاشور حال میں سامنے آیا جب عید کے روز ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار پر حملہ کرنے والے نیٹ ورک کاسیکورٹی اداروں نے پتہ لگا، اس نیٹ ورک میں زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں جسکی سرپرستی پروفیسر لیول کی شخصیت کررہی ہیں، جبکہ یہ دہشتگرد گروہ لیبیا کے دہشتگرد جماعت انصار الشریعہ سے متاثر تھے اور اسی نام سے پاکستان میں کاروائیاں کررہے تھے، انکا ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معصوم شہری ہیں۔

 

مگر اہم بات یہ ہے کہ اس سےپہلے بھی کئی بار سیکورٹی اداروں نے اپنی رپورٹس میں انکشاف کیا تھا کہ کراچی سمیت ملک کی دیگر جامعات میں دہشتگردوں کے نیٹ ورکس موجود ہیں ، اس حوالے سے کراچی کے سی آئی ڈی افسر راجہ عمر خطاب اور انسویٹیگنش جنرنل اسٹ عامر فاروقی کی بے تحاشہ روپوٹس موجو دہیں، مگر افسوس اس وقت اس بات پر دھیاں نہیں دیا گیا۔

پاکستان میں دہشتگردی کی یہ تکفیر ی فکر بدترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاۂ الحق کے دور میں شروع ہوئی جب انہوںنے افغان جہاد کےنام پر پاکستان میں ایک مخصوص مکتب فکر کے مدارس کو مضبوط کیا، سرکاری امارتوں میں اسی مخصوص شدت پسند مکتب فکرکے مولویوں کو بطور سرکاری پیش اما م بنایا گیااور اس مکتب کی تبلیغ کو سرکاری سرپرستی دی گئی۔

دوسری جانب اسی افغان جہاد کی آڑ میں مضبوطی اور طاقت حاصل کرنے والی جماعت اسلامی اور اسکی بغل بچہ طلبہ جماعت اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعہ تعلیمی ادارو ں میں کلاشن کوف کلچر کو پھیلایا گیا جسکا نتیجہ تعلیمی اداروں میں بدترین تصادم کے طور پر سامنے آیا

اسی طرح حزب التحریر کے نام سے کڑ دیوبندی فکر کے ذریعہ خلافت کے نام پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو ورغلانے کے لئے متحرک ہوئی۔

1980 کی دہائی سے شروع ہونے والا یہ فتنہ اب قد آور درخت بن چکا ہے، مدرس سے نکل کر جہادی فکر تعلیمی داروں ،حتیٰ کے سیکوڑٹی اداروں کے اندر تک گھس چکی ہے۔

تعلیمی اداروں میں دہشتگردی اور جہادیت کی فکر کو پھیلانے والے اور اسکی سہولت کاری کرنے والےوہی لوگ ہیں جنہوںنے طلبہ میں کلاش کوف کلچر کو عام کیا،کیونکہ انکی نظریاتی تربیت بھی اسی مائنڈ سیٹ کے ذریعہ ہوئی ہے جو جہاد کےنام پر عام مسلمانوں کو قتل کرنا باعث ثواب سمجھتے ہیں،۔

اسکی تازہ مثال جامعہ پنجا ب سے برآمدہ ہونے والے القائدہ کے خطرناک کمانڈر کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم کے کمرے میں روپوش تھا، دوسری جانب جامعہ کراچی میں 2010 میں ہونے والا بم دھماکہ ہے جس میں بھی اسلامی جمعیت کے طلبہ ہی ملوث تھےاور بعد میں گرفتار ہوئے، جنہوں نے جامعہ پنجاب میں ہونے والے سالانہ تنظیمی کنویشن میں شرکت کی اور وہاں سے افغانستان ٹرینگ کے لئے گئے پھر واپس کراچی آکر جامعہ کراچی میں دوران نماز طلبہ پرریموٹ بم دھماکہ کیا،یہ سب پولیس تحقیقات میں محفوظ ہے۔
علاوہ ازین سبین محمود قتل کیس، سانحہ صفورہ سمیت دیگر واقعات میں ملوث اگر ان پڑھے لکھے دہشتگردوں کی ہسٹری نکالی جائے تو انکا تعلق یا ماضی اسلامی جمعیت طلبہ یا حزب التحریر سے ہی نکلے گا، اسی لئے پاکستان کے مقتدر حلقوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو ان ناسوروں سے محفوظ بنانے کے لئے تعلیمی اداروں میں ان دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف بھرپور کاروائی کریں تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button