آرمی چیف کی باتوں میں سو چ کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا آتا محسوس ہو، مشاہد حسین
شیعیت نیوز: چیئرمین ڈیفنس کمیٹی سینیٹ مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ سول ملٹری قیادت میں ہم آہنگی خوش آئند بات ہے، آرمی چیف کی باتوں میں سوچ کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا آتا محسوس ہوا ،آرمی چیف اداروں کی بالادستی کی بات کررہے ہیں تو خوش آئند ہے، پاکستان میں عدلیہ ، میڈیا آزاد اور پارلیمنٹ مضبوط ہے، ہم اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرا رہے بلکہ سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں تجزیہ کار مشرف زیدی اور دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود بھی شریک تھے۔
طلعت مسعود نے کہا کہ آرمی چیف نے پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے، انڈین آرمی چیف چین اور پاکستان کیخلاف بیانات دے کر ڈوکلام پر پسپائی کی خفت مٹارہے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات زمینی حقائق میں تبدیلی لائے بغیر بہتر نہیں ہوسکتے۔مشرف زیدی نے کہا کہ صرف تقریروں سے بات نہیں بنے گی مضبوط پالیسی بنانی ہوگی، خواجہ آصف کی اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات ان کا تجزیہ ہے، انہیں بتانا چاہئے تھا کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کرنے کیلئے کیا کیا کررہے ہیں۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ موجودہ حالات میں سول ملٹری قیادت میں ہم آہنگی خوش آئند بات ہے، سول و ملٹری قیادت کے حالیہ بیانات سے قوم میں خود اعتمادی آئی ہے،امریکا کا خطے میں وہ اثر و رسوخ نہیں رہا جو سولہ سال پہلے تھا.
پاکستان کے پاس آپشنز ہیں جو اپنے قومی مفاد میں استعمال کریں گے، آرمی چیف کی باتوں میں سو چ کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا آتا محسوس ہوا ۔مشاہد حسین نے بتایا کہ یوم دفاع کے پروگرام میں اسپیکر قومی اسمبلی، خورشید شاہ ، جنرل راحیل شریف اور آرمی چیف جنرل باجوہ سے اچھی گپ شپ رہی، میں نے جنرل باجوہ سے کہا یہ خوش آئند ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں کہ خاکی اور مفتی ایک صفحہ پر ہیں اور کتنی ہم آہنگی ہے، میں نے انہیں کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ ٹرمپ کے ایشو پر سب نے ایک ہی صفحہ پر آکر بات کی اور امید ہے ٹرمپ کے علاوہ دیگر ایشوز پر بھی ایک صفحہ پر ہوں گے تو جنرل باجوہ نے کہا کہ بالکل ہم ہر ایشو پر ایک صفحہ پر ہوں گے، میں نے افغانستان کے حوالے سے بات کی تو جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ وہ تیس چالیس سال پرانی پالیسی ہے اور ہمیں چیزوں کا ریویو کرتے رہنا چاہئے۔
آرمی چیف نے واضح کردیا ہے کہ افغانستان میں امن کی کوشش کریں گے لیکن اگر افغان سیکشنز امن نہیں چاہتے تو ان کی جنگ پاکستان نہیں لائیں گے، افغان انٹیلی جنس چیف کی روز افغان طالبان قیادت سے بات ہوتی ہے لیکن ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہیں، امریکا افغانستان میں عراق جنگ اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے ناکام ہوا ہے۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ نظریہ ضرورت امریکا کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے، امریکا کو جب ضرورت ہوتی ہے تو حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کو استعمال کرتا ہے، پاکستا ن نے جیش محمداور لشکر طیبہ پر پابندی لگادی ہے، ہم اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرا رہے بلکہ سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، آرمی چیف اداروں کی بالادستی کی بات کررہے ہیں تو خوش آئند ہے، پاکستان میں عدلیہ ، میڈیا آزاد اور پارلیمنٹ مضبوط ہے، راحیل شریف پاکستانی شہری کی حیثیت میں سعودی عرب گئے۔