پاکستان

اسلامی اتحاد ایران پر حملہ کر دے گا، یہ درست نہیں، مشیر خارجہ

شیعیت نیوز: وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے بھارت فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہے، اسلامی فوجی اتحاد کے دائرہ کار کا ابھی تک کوئی تعین نہیں ہوا، جیسے ہی اتحاد کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوگا، اسے پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائیگا۔ پاکستان علاقائی معاملات میں متوازن پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری سے ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اسلامی فوجی اتحاد میں اتحاد کے 34 ارکان تھے، تاہم اب ان کی تعداد 40 ہوگئی ہے، اس اتحاد کے بارے میں یہ کہا گیا اس کے تمام ارکان اس بات کا خود فیصلہ کریں گے کہ وہ فوجی تعاون، استعداد کار سمیت کس سرگرمی میں شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2015ء میں بتایا گیا کہ وزراء دفاع کے اجلاس میں اتحاد کے پروگرام اور طریقہ کار کا تعین کیا جائیگا، تاہم یہ اجلاس ابھی تک نہیں ہوا۔ جیسے ہی اتحاد کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوگا، اسے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا پاکستان کی پالیسی دس اپریل 2015ء کی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کے عین مطابق ہے کہ ہم علاقائی معاملات میں توازن برقرار رکھیں گے اور حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا جنرل (ر) راحیل شریف کا انسداد دہشتگردی میں وسیع تجربہ ہے اور اسی تجربے کی وجہ سے انہیں ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ ریاض اعلامیہ میں اگرچہ ایران کا ذکر ضرور ہے، تاہم اس حوالے سے خدشات درست نہیں اور ایران کے خلاف کارروائی کا مفروضہ درست نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جنرل (ر) راحیل شریف کی فوجی اتحاد میں موجودگی سے توازن قائم ہوگا۔ ریاض اعلامیہ میں ایران کے بارے میں بیان ایک سیاسی بیان تھا، تاہم یہ حقیقت ہے کہ ایران، عراق اور شام کے تنازعات فرقہ وارانہ نوعیت کے ہی ہیں اور اس وقت اسلامی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی کی طرح مسلمان ممالک کو متحد دیکھنا چاہتا ہے۔ سینیٹ میں کابل بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ نیٹ نیوز کے مطابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے یہ تاثر درست نہیں اسلامی اتحاد ایران پر حملہ کر دے گا، اتحاد کا فوکس دہشت گردی پر ہے۔ سینٹ میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا پاکستانی افواج سعودی عرب سے باہر تعینات نہیں کی جائیںگی۔ انہوں نے کہا جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو بھی ایران کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کا احساس ہے۔ ان کی موجودگی اس حوالے سے توازن بھی رکھے گی۔ انہوں نے کہا ننگرہار حملے کی تفصیلات ہمیں فراہم نہیں کی گئیں، پاکستانی سرحد کے قریب بھارتیوں کی موجودگی باعث تشویش ہے۔ انہوں نے مزید کہا پاکستانی سرحد کے اتنے قریب بھارتی موجود تھے، بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیاں کیں۔ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا بھارت پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے، بھارتیوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں حملے سٹیج کرتے ہیں۔

نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے سعودی فرمانروا نے اتحاد کو دہشت گردی کے خلاف قرار دیا اور ایران کا نام لیا۔ کیا حکومت راحیل شریف سے لاتعلق ہوگئی ہے؟ راحیل شریف اسلامی اتحاد کے سربراہ ہیں، وہ اتحاد کسی ملک پر حملہ کر دے تو کیا ہوگا۔ پاکستان ایسی کسی کارروائی میں شامل نہ ہو، لیکن راحیل شریف ہو جائیں تو کیا ہوگا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کولیشن کا میکنزم تیار کرنے کیلئے وزراء دفاع کی کانفرنس کا کہا گیا تھا۔ ممبر ممالک نے خود فیصلہ کرنا ہے، وہ اتحاد کی کسی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ وزراء دفاع کا اجلاس نہیں ہوا، اس لئے کولیشن کے ٹی او آر نہیں بنے۔ جیسے ہی ٹی او آر بنیں گے توثیق سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ نہال ہاشمی کا استعفٰی چیئرمین سینٹ رضا ربانی کو پیش کر دیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ نے نہال ہاشمی کو 5 جون صبح 10 بجے طلب کر لیا۔ سینٹ ذرائع کے مطابق نہال ہاشمی سے ان کے استعفٰی کی تصدیق کرائی جائے گی۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اپنے ایک حکم نامے (رولنگ) میں حکومت کو پابند کیا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی شرائط اور طریقہ کار وفاقی کابینہ میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل پارلیمان کے سامنے بحث کے لئے رکھا جائے۔

اس اتحاد کے حوالے سے اگرچہ اہم ترین ہدف شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ ہے، تاہم مختلف حلقوں میں یہ تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ اسے سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کے خلاف فرقہ وارانہ انداز میں استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ گذشتہ روز پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اسلامی اتحاد سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیا۔ فرحت اللہ بابر نے اپنے نوٹس میں ان اخباری اطلاعات پر تشویش ظاہر کی تھی، جس میں سعودی حکام نے کہا تھا کہ اسلامی اتحاد محض خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم یا القاعدہ کے خلاف کارروائیوں تک محدود نہیں ہوگا بلکہ کسی رکن ملک کی درخواست پر باغی گروپوں کے خلاف حرکت میں لایا جا سکے گا۔ سرتاج عزیز نے اعتراف کیا حالیہ ریاض کانفرنس میں ہونے والے تقاریر سے فرقہ ورانہ تقسیم کا خدشہ بڑھا ہے، لیکن ان کا کہنا تھا سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی موجودگی سے پاکستان کو اپنے موقف کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان اس اتحاد میں شامل اپنی فوج سعودی عرب سے باہر کہیں نہیں بھیجے گا۔ کسی ملک کے اندر کارروائی سے متعلق چیئرمین سینٹ کے سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا یہ مفروضے پر مبنی سوال ہے اور اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا، لیکن سعودی حکام کا شاید اشارہ یمن کی جانب تھا، جہاں ایران کا بھی اثر و رسوخ ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے، نہ کہ کسی ملک جیسے کہ ایران کے خلاف ہے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اسلامی ملٹری الائنس کے ٹرم آف ریفرنس کی توثیق سے قبل پارلیمنٹ سے ان کی منظوری لینے کی رولنگ جاری کر دی۔ چیئرمین سینٹ نے یہ بھی استفسار کیا ہے کہ اسلامی ملٹری الائنس کی کسی ملک کے خلاف کارروائی کی صورت میں حکومت پاکستان خود کو کیا اس الائنس کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف سے فاصلے پر رکھتے ہوئے کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کرے گی۔ اپوزیشن نے کہا ایران کے خلاف کارروائی کے اشارے مل رہے ہیں۔ نوائے وقت نیوز، اے پی پی کے مطابق اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے اسلامی ملٹری الائنس کی کسی اسلامی ملک کے خلاف ممکنہ کارروائی کے پیش نظر اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کو پاکستان بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ فوجی اتحاد کے دائرہ کار کے بارے میں پانچ اہم سوالات اٹھا دیئے گئے۔ کیا اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آر کو حتمی شکل دی جا چکی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے تو وہ شرائط کیا ہیں اور انہیں 11 اپریل کو کئے ہوئے وعدے کے مطابق سینٹ کے سامنے کیوں نہیں رکھا اور چیئرمین سینٹ کی رولنگ کے مطابق پارلیمانی منظوری سے قبل سینٹ اور قومی اسمبلی کے سامنے کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ ان ٹی اوآر کو حتمی شکل نہیں دی گئی تو جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت کیوں دی گئی؟ وزارت خارجہ اس بات سے بھی آگاہ کرے۔

الائنس کے ٹی اوآر کے حوالے سے صورتحال بدل گئی تو کیا پاکستان ممکنہ آپشنز پر غور کر رہا ہے اور راحیل شریف واپس نہ آئے تو کیا یہ پاکستان کیلئے دھچکا نہیں ہوگا۔ کیا راحیل شریف کو واپس بلایا جا سکتا ہے بلکہ واپس بلایا جانا چاہیے، کیونکہ کسی اسلامی ملک کے خلاف کارروائی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس کے بعد ایسی رپورٹیں سامنے آئیں جن میں سعودی حکام کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ یہ فوجی اتحاد صرف دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ کسی بھی رکن ریاست کے کہنے پر ایسے عسکریت پسندوں اور باغیوں کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے، جس سے کسی بھی رکن کو خطرہ درپیش ہو۔ ریاض میں اعلٰی اسلامک امریکی سمٹ منعقد میں امریکی صدر ٹرمپ نے اتحاد کی بندوقوں کا رخ عسکریت پسندی کی بجائے ایران کی جانب کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سمٹ کے ذریعے ایران کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے کر اس میں ایران کو اسلامی دنیا سے کاٹ کر تنہا کر دیا۔ اس سمٹ کے بعد پاکستان کا پڑوسی ایران اور پاکستان کا روایتی اتحادی دوست سعودی عرب ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ اس سے پاکستان کی سلامتی کو ایک نیا خطرہ لاحق ہوگیا۔ سنیٹر فرحت اللہ بابر نے متذکرہ پانچ سوالات کئے اور کہا کہ ان کے واضح جوابات دیئے جائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button