مقالہ جات

ایران کے خلاف سعودی دھمکیوں کی حقیقت

سعودی شہزادہ و وزیردفاع محمدبن سلمان کی جانب سے ایران کو دی جانے والی دھمکی کے جواب میں ایرانی وزیردفاع نے کہا’’ وہ سعوی عرب میں دومقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ پورے سعودی عرب کو تباہ کردے گا ‘‘

تو کیا جو کچھ ایران نے جوابا کہہ دیا ہے اسے عملی کرنے کی ایران پوزیشن رکھتا بھی ہے ؟

اورکیا سعودی عرب ایران کی جوابی کاروائی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟

جرمنی میں مقیم عرب صحافی سامی رباع کا کہنا ہے کہ اس کی ملاقات ایک ایسے سعودی اہم سرکاری و سابق فوجی فرد سے ہوئی کہ جس نے اس موضوع پر کچھ انتہائی اہم گفتگو کی انکا کہنا تھا کہ  سعودی عرب ہر چیز جو خریدنے کی کوشش میں ہے کہ عالمی وعلاقائی سطح ہر حمایت یا کم ازکم مخالفت کی جگہ خاموشی سے لیکر تنقید کرنے والے صحافیوں میڈیا ہاوسز تک کو خریدا جارہا ہے ،قلم کاروں ،مضمون نگار ،اینکرز تک کو خوب پیسے دیے جارہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ آپ صرف بند بن سلطان کی جانب سے یورپ اور امریکہ میں صحافیوں کے درمیان بانٹے گئے اربوں ڈالر کو ہی لیجئے کہ جس میں صرف اس بات کےلئے بھی پیسے بانٹے گئے کہ آل سعود کی حمایت نہ ہو تو کم ازکم تنقید نہیں کی جائے

سعودی عرب کروڑوں ڈالر کا یورپی ممالک اور امریکہ سے سالانہ اسلحہ خریدتا ہے اور اس خریداری کا ایک مقصد بھی ان ممالک کو خوش رکھنا ہے
سعودی فوج میں دس لاکھ سے زائد افراد نوکری کررہے ہیں لیکن شائد چند سو بھی ایسے نہیں ہونگے جو اس انتہائی مہنگے اور پیچیدہ ٹیکنالوجی سے لیس اسلحے کو چلانے کی مہارت رکھتے ہوں ۔

آدھی سے زیادہ انپڑھ سعودی فوج اس قسم کا سلحہ چلانا نہ جانتی ہے اور نہ ہی اس کی کسی قسم کی ٹریننگ دینے کا کوئی اہتمام ہے یہ اسلحہ بکسوں میں بند پڑارہے گا ۔

اس اہم سعودی فرد کا کہنا تھا کہ یمن جنگ کو دیکھ لیجئے یمن پر بمبار ی کرنے والے اکثر پائلٹوں کاتعلق غیر سعودیوں سے ہے جن میں افریقی عربی و چند مسلم ملکوں کے پائلٹ شامل ہیں
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور تمام خلیجی ممالک ملک کر بھی کسی بھی قسم کے ایرانی حملےیا جوابی کاروائی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہذا یہ ممکن نہیں کہ وہ ایران پر حملہ کرنے کا سوچیں ۔

خلیجی ممالک کا سارا انحصار امریکہ اور یورپ پر ہے دیکھیں کہ عالمی سطح پر اس بات کو لیکر اتفاق ہے کہ دنیا بھر میں موجود دہشتگردتنظیموں کی امداد کے پچھے سعودی عرب اور قطر موجود ہیں
افغانستان ،نائجریا،صومالیہ ،شام ،عراق ،لیبیا ہو یا کہیں اور جہاں بھی دہشتگرد گروہ موجود ہیں ان کی مالی مدد سعودی عرب اور قطر کرتے ہیں ،امریکہ اور یورپ خود انہیں ملنے والی اربوں ڈالر کی رشوت کے سبب خاموش رہتے اور نظر انداز کرتے ہیں ۔

اس تمام تر صورتحال کے باوجود ہوسکتا ہے کہ یہ ممالک امریکیوں کے ساتھ مل کر کسی قسم کی حماقت کربیٹھیں تو ایسے میں اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ عراق و افغانستان ہمارے سامنے میں جبکہ ایران ان دونوں ملکوں سے کئی سو گنا زیادہ مضبوط ملک ہے افغانستان و عرا ق دونوں سے ایران کی آبادی زیادہ اور انسانی ریسورسز سے مالا اور اپنے وطن اور انقلاب کے دفاع میں سخت کٹر جذباتیت رکھنے والا ملک ہے

ایران کے انقلاب کی حمامی قوتیں ایک الگ کہانی رکھتیں ہیں جس کا ایک نمونہ لبنان کی عسکری و سیاسی جماعت ہے کہ جس کا سامنے کرتے اسرائیل بھی خوفزدہ ہے
تو ایسے میں بن سلمان کی باتیں صرف تشہیراتی پہلو رکھتی ہیں جس کا حقیقت اور زمینی حقائق سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نظر نہیں آتا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button