مقالہ جات

مشرق وسطی مسائل (ایک مطالعہ)

۱:گذشتہ قریب ایک صدی کی کوششوں کو امریکہ اور اس کے اتحادی ہاتھ سے جاتا ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔

۲:امریکہ کو اس بات کا خوف بھی ہے کہ کہیں عرب بادشاہتیں اپنا اقتدار کھو نہ بیٹھیں ،جبکہ اسی خطرے کا احساس خود عرب مطلق العنان بادشاہتوں کو بھی ہے ۔
۳:سابق صدر اوباما کے دور میں عراق و افغانستان میں ناکامی سمیت اقتصادی مسائل خاص کر اتحادیوں کے اقتصادی مسائل تو دوسری جانب مشرق وسطی میں مزاحمتی بلاک کی کامیاب بروقت حکمت عملی کے سبب کسی قسم کی عملی براہ راست مداخلت کا کوئی راستہ دیکھائی نہ دیا اور اس میں کسی قسم کا شک کوئی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
۴۔ٹرمپ کے دور حکومت میں اب تک صورتحال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے بڑے حصے پر چند ایسے جرنیلوں کا تقریبا قبضہ ہوچکا ہے جو کسی قسم کا سیاسی و ڈیپلومیٹک تجربہ اور مہارت نہیں رکھتے ،گرچہ انہیں اپنے ملک کی گرتی معیشت کا حل عربوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ وصول کرنے میں نظر آرہا ہے ۔
۵۔امریکہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر حاصل کرسکتا ہے اور کرچکا ہے لیکن کیا وہ مشرق وسطی کے بحران میں کسی قسم کا عسکری کردار ادا کرسکتا ہے ؟
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکہ کے لئے ایسا ممکن نہیں ہے اور انہیں بھی اس کا اندازہ ہے کیونکہ اس سے قبل وہ عراق میں اس کا تجربہ کرچکے ہیں اور ناکام رہے ہیں کیونکہ آج عراق امریکی بلاک کا حصہ نہیں اور عراق میں مزاحمتی بلاک ہی ہے جو گرونڈ میں مکمل کنٹرول رکھتا ہے ۔
شام میں کسی ایک میزائل مارنے ،شمالی کوریا کو دھمکیاں دینے سے لیکر افغانستان میں مدر آف آل بم مارنے کا مقصد صرف نفسیاتی برتری کا احساس پیدا کرنا تھا ۔
۶۔تو کیا ٹرمپ کے پاس مشرق وسطی کے حوالے سے کوئی آپشن نہیں بچا ہے ؟کیونکہ بظاہر پورا خطہ
ٹرمپ جیسوں کے لئے مکمل تیار نظر آتا ہے کیونکہ
الف:مذہبی ،علاقائی اور قومی تقسیم پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے
ب:بطور کلی امت مسلمہ خواہ مشرق وسطی سے باہر ہی کیوں نہ ہو اس متاثر نظر آتی ہے
ج:مشرق وسطی میں مزاحمتی بلاک کے تین اہم علاقےیمن عراق وشام بری طرح بدامنی کا شکا ر ہیں جبکہ لبنان بھی شدید متاثر ہے ۔
کیا ایک اچھا گرونڈ نہیںکہ ٹرمپ جیسے افراد اپنے مقاصد حاصل کریں کیونکہ ان کے ایجنڈوں میں تو یہ تقسیم پہلے نمبر پر تھی ۔
یہ بات صحیح ہے کہ ان بحرانوں نے امت کو بری طرح متاثر کیا ہے نہ صرف مزاحمتی بلاک کو لیکن دوسری جانب ان بحرانوں کو مقاومت کی بہترین فرصت میں بدل کر مزاحمتی بلاک نے جو جواب دیا ہے وہ بالکل بھی امریکی صیہونی بلاک کی توقع میں نہ تھا ۔
جیساکہ شام کے بحران کے وقت وہ سال کے اندر اندر سب کچھ سمیٹنے کی امید رکھتے تھے اور یہی چیز یمن کے بارے میں سوچ رہے تھے مہینوں میں سب کچھ لپیٹ دیا جائے گا اور اسی تصور کے ساتھ امریکہ عراق میں آیا تھا ۔
اس وقت امریکہ صیہونی سعودی بلاک کے پاس کسی قسم کی کوئی حکمت عملی و پلان موجود نہیں کیونکہ انہیں کوئی راہ دیکھائی نہیں دے رہی ہے گرچہ وہ نئے نئے اتحاد(فرقہ وارانہ عسکری اتحاد)بناکر یاکوئی نیا ایشو کھڑا کرکے (کیمکل ایشو)کچھ ادھر ادھر کی مارنے کی کوشش میں ضرور ہیں ۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت مشرق وسطی میں بات یہ نہیں ہورہی ہے کہ امریکی چوہدراہٹ کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ وہ تو بالکل ہی ہونے جارہی ہے بات دراصل یہ ہے کہ دنیا سے وہ تصور مٹنے جارہا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے یعنی امریکی سپرمیسی کا تصور ٹوٹنے جارہا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کیونکہ عراق و افغانستان میں امریکی شکست بہت سوں کے لئے کچھ زیادہ واضح نہیں ہوپائی ہے لہذا مشرق وسطی میں ہونے والی شکست اس قدر واضح ہونے جارہی ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں بھی آجائے گا کہ امریکہ سپر پاور نہیں رہا ،لہذا مریکیوں کو اسی کا خوف کھائے جارہا ہے اور امریکی سہاروں پر کھڑے تمام اس کے اتحادی بھی اسی خوف کا شکار ہیں ۔
یہاں اس بات کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جاسکتا کہ مشرق وسطی میں سعودی جذباتی جوان(بن سلمان) اور امریکی نفسیاتی بیمار صدر (ٹرمپ)مسلسل ناکامیوں کی جھنجھلاہٹ کے سبب کوئی ایسا فیصلہ کربیٹھیں کہ جس کا نتیجہ عالمی جنگ کی شکل میں نکل آئے ۔

حیدر قلی

متعلقہ مضامین

Back to top button