مقالہ جات

بھوک ہڑتال نے تکفیریت کے جن کو بوتل میں بند کیا

تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل)تاریخ گواہ ہے کہ فتنہ تکفیر کا آغاز اور سپاہ صحابہ کی بنیاد کا تحفہ 80 کے عشرے میں حاکم ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کو دیا. اور اس فتنے نے ہزاروں ماؤوں کی جھولیاں برباد کیں اور ہزاروں بہنوں کا سہاگ لوٹا اور ہزارون بچوں کو یتیمی کا زخم دیا. یہ کوئی خود رو فصل نہ تھی بلکہ اس کا بیج ہمارے مخصوص طرز فکر کے حکمرانوں نے فقط بویا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اسکی سرپرستی ، رکھوالی اور آبیاری بھی کی. اور یہی زہریلی فصل انکے اسٹرٹیجک ایسٹس شمار ہوتے تھے. جن پر نا عاقبت اندیش حکمران ناز اور فخر کرتے تھے. اور دوست نما وطن عزیز کی سالمیت کے دشمن ممالک انکی مکمل طور مالی اور فکری اور لاجسٹک بھرپور سپورٹ کرتے تھے۔

لیکن یہی آخر کار آستین کے سانپ ثابت ہوئے. انہوں نے ہر شہری کو بلا امتیاز ڈسا اور پوری قوم متاثر ہوئی. جس کی سب سے بھاری قیمت بانیان پاکستان کی اولاد اہل تشیع کو چکانا پڑی. انکے خلاف لشکر کشیاں ہوئیں، انھیں بسوں سے اتار کر ذبح کیا گیا، انکے نماز جمعہ ، مجالس عزاء اور عزاداری کے جلوسوں میں دھماکے کئے گئے. اور گھروں میں گھس کر ، برسرعام سڑکوں پر اور ہسپتالوں میں شہید کیا گیا. خود انکی پشت پناہی کرنے والے افراد اور سہولتکار بھی محفوظ نہیں رہے .اور حکومتی اداروں کو بھی انھوں نے نشانہ بنایا. یہاں تک کہ فقط پاک فوج ہی نہیں بلکہ انکے نونہال بچوں کو بھی سکولوں میں گھس کر انہوں نے ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا. تب حکمرانوں کا ہوش ٹھکانے آیا اور ملٹری آپریشن کا آغاز ہوا۔

ایک طرف حکمرانوں نے پہلی بار درست پالیسی اپنائی. اور دوسری طرف ملک وملت کا درد رکھنے والی مختلف مکاتب فکر کی قیادت نے انہیں ایکسپوز کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا. انکا ارادہ تو تھا کہ مشرق وسطی کی طرح وطن عزیز میں بھی فرقہ واریت اور مذھبی جنگ چھیڑ دی جائے. لیکن انکے منحوس ارادوں کو بھانپتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ ، ناصر ملت ، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پوری قوم کو کسی آزمائش میں ڈالے بغیر اپنی ذات کی قربانی دی اور بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا. انھوں نے اس مظلومانہ روش سے پوری ملت پاکستان کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا. پاکستان کی تمام تر سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور مذہبی جماعتوں کے لیڈران کہ جنکا تعلق تمام مکاتب فکر سے تھا انھیں اخلاقی طور پر پریس کلب اسلام آباد آنے پر مجبور کیا.حتی کہ اقلیتوں کے سربراہان بھی اظھار یکجہتی کے لئے آئے. اس 85 روزہ بھوک ہڑتال نے تکفیریت کو بند گلی میں دھکیل دیا. پاک فوج کی قربانیوں ، حکومتی پریشر اور عوامی نفرت کے نتیجہ میں اب یہ تکفیریت کا جن بوتل میں بند ہونے کا خود خواہش مند ہے۔

گو اپنی جگہ یہ ایک مثبت قدم ہے کہ مجرم جرائم ترک کرنے اور قانون کی حکمرانی کو قبول کرنے کا اعلان کرے. اور مجرموں کو جرائم چھڑوانے کی پالیسی ملک کے امن کے لئے مفید ہے. لیکن آئین اور دستور کو پس طاق رکھ کر نہیں بلکہ آئینی تقاضوں کے مطابق عمل ہونا چاہیئے. کیونکہ آئین کی بالا دستی ہی اجتماعي عدالت کے قیام اور ملک میں امن وامان کی ضمانت ہے۔

اس کام کے لئے کسی ضابطہ اخلاق کی ضرورت نہیں بلکہ آئین کی بالا دستی کو قبول کرنے کی ضرورت ہے. کہ کسی شہری کو حق نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اور غیر آئینی اقدامات کرے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک جعفریہ پر لگائی جانے والی پابندی ظالمانہ حکومتی اقدام تھا اور بیلنس پالیسی کے تحت پابندی عائد کی گئی. جسے ملت تشیع کبھی قبول نہیں کرے گی. اور اس بات کو وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان صاحب سے ملاقات کے دوران بھی علامہ ناصر عباس جعفری نے واضح طور پر زور دیا تھا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی جیسی بزرگ شخصیت کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنا ظلم اور ناانصافی ہے. اسے فورا نکالنے کا مطالبہ بھی کیا تھا. جس کا اظھار پھر خود وزیر داخلہ صاحب نے بھی پریس کانفرنس میں کیا. اس جماعت کا یا اسکی قیادت کا دھشتگردی سے کوئی تعلق نہیں. آج اگر کوئی مجرم اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے اور اسکا احترام کرنے پر راضی ہوا ہے تو اسے کسی ڈیل کی شکل دینے کی کوشش نہ کی جائے. اور قوم کے ساتھ ایک اور دھوکہ نہ کیا جائے. تشیع نے ہمیشہ اسی عدالت کی خاطر آج تک قربانیاں دی ہیں. اور آئین وقانون کی حکمرانی پر نامساعد حالات میں بھی زور دیا ہے۔

اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ جھوٹے مقدمات کے مد مقابل جن لوگوں کے ھاتھ بیگناہ پاکستانی عوام کے خون میں رنگین ہیں. انھیں قانون اور عدالتی تقاضوں کے مطابق ڈیل کیا جائے. اوربعدالت کے کٹھڑے میں لایا جائے. حکومت حق عام کو تو معاف کر سکتی ہے لیکن عام عوام کے پرسنل حقوق کو کسی اسمانی ، انٹرنیشنل یا پاکستانی لاء کے مطابق شخصی حق کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ۔

جن لوگوں نے کفر وقتل کے فتوے دئیے اور عوام کو قتل کرنے پر اکسایا اور جذباتی ماحول بنایا یہ سب قاتلوں کے ساتھ انکے قتل میں شریک ہیں. انہیں آئین کے مطابق سزا ملنی چاہیئے۔

آج تکفیری اگر اس غیر اخلاقی اور غیر آئینی اور غیر انسانی روش کو چھوڑنا چاہتا ہے تو حکمران ،قومی لیڈران اور اکابرین ملت اس کو عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق اسکی حوصلہ افزائی کریں اور صلح وہی دیر پا ہوتی ہے جس کی بنیاد عدل اور قسط پر ہوتی ہے۔

((…… فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الحجرات : 9]))

 

متعلقہ مضامین

Back to top button